بوخن والڈ حراستی کیمپ کی آزادی کی 80 ویں سالگرہ
6 اپریل 2025جرمن شہر وائمار کے نزدیک نازی دور کے مظالم کی چند انتہائی تکلیف دہ یادگاروں میں سے ایک بوخن والڈ کے حراستی کیمپ کی یادگار موجود ہے، جہاں آج اتوار چھ اپریل کو اس کیمپ کی آزادی کی 80 ویں سالگرہ کی یادگار تقریب کا انعقاد ہوا۔ تقریب میں سابق جرمن صدر کرسٹیان وولف دیگر اہم سیاسی شخصیات کے ساتھ موجود تھے۔ اپنے خطاب میں سابق صدر نے نازیوں اور اور آج کے دور میں جرمنی میں ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی دائیں بازو کی بنیاد پرستی کا موازنہ کیا۔ انہوں نے کہا، ''عالمی سطح پر ایک تبدیلی جس کا تعلق بنیاد پرستی سے ہے دیکھ رہا ہوں اور یہ رجحان مجھے بے چین کر رہا ہے۔‘‘ کرسٹیان وولف نے جمہوریت کو بچانے اور اس کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ذمہ داری اب موجودہ نسل پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ مستقبل میں برائی کبھی دوبارہ غلبہ حاصل نہ کر سکے اور اس کی کبھی فتح نہ ہو۔ اتوار کو یادگار تقریب میں سابق جرمن صدر کرسٹیان وولف کے خطاب کے علاوہ تھورنگیا کے وزیر اعلیٰ ماریو فوئگٹ نے بھی تقریر کی۔
آؤشوِٹس میں قیدی خواتین کا نازی فیشن سلون
اس نازی حراستی کیمپ کو امریکی فوجیوں نے 11 اپریل 1945ء کو آزاد کروایا تھا۔
ایک اور تقریب کا انعقاد
پیر سات اپریل کو اس حراستی کیمپ کے دوسرے حصے مٹل باؤ ڈورا میں بھی ایک اور یادگاری تقریب منعقد ہوگی۔ Buchenwald and Mittelbau-Dora Memorials Foundation کا کہنا ہے کہ اس سال کی تقریب میں بیلاروس، فرانس، جرمنی، اسرائیل، رومانیہ اور سوئٹزرلینڈ سے 10 زندہ بچ جانے والوں کی شرکت کی متوقع ہے۔
ہولوکاسٹ یادگاری دن، جرمن پارلیمان کا اظہار عقیدت
بوخن والڈ اینڈ مٹل باؤ ڈورا میموریل کیا ہے؟
اس مقام کو یورپ کے لیے ایک سبق آموز یادگار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے دوران حراستی کیمپوں میں جبری مشقت اور ہتھیاروں کی پیداوار کی زیر زمین منتقلی کی تاریخ کا ایک مثالی بنکر تھا۔
1943ء اور 1945ء کے درمیان، تقریباً تمام یورپی ممالک کے 60,000 سے زیادہ افراد کو جرمن اسلحہ سازی کی صنعت کے لیے Mittelbau-Dora حراستی کیمپ میں مزدوری کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ان میں سے ہر تین میں سے ایک کی موت واقع ہوئی تھی۔‘‘
جرمنی سمیت متعدد یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ کا یادگاری دن
1937ء کے موسم گرما کے بعد سے نازیوں نے 280,000 سے زیادہ انسانوں کو شہر وائمار کے نزدیک بوخن والڈ کے حراستی کیمپ میں جبری طور پر منتقل کیا تھا۔ اس کیمپ اور اس کے 139 ذیلی کیمپوں میں تقریباً 56000 لوگ یا تو بھوک سے مرے تھے یا بیماری، جبری مشقت یا طبی تجربات کی وجہ سے لقمہ اجل بنے تھے۔
جرمنی اس وقت دائیں بازو کی انتہا پسندی سے خوفزدہ
اس سال بوخن والڈ حراستی کیمپ کی 80 ویں سالگرہ ایک ایسے موقع پر آئی ہے جب جرمنی اور پوری مغربی دنیا میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست فروغ پا رہی ہے۔ مقامی طور پر، انتہائی دائیں بازو کی آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (AfD) اب تھورنگیا میں سب سے بڑی پارٹی ہے۔ یہ پارٹی جرمنی کے ''یادگار کلچر‘‘ کو زندہ رکھنے کی مخالفت کرتی ہے اور اس نے ماضی میں جرمنی کی نازی تاریخ کو سیاہ باب کے طور پر پیش کرنے کے خیال سے گریزاں رہی ہے اور معاشرے پر زور دے رہی ہے کہ وہ جرمن تاریخ کے اس حصے کو بھول کر آگے بڑھے۔
ادارت افسر اعوان