بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی مشکلات
2 جولائی 2014بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی صورتحال بین الاقوامی برادری کے لیے اُس وقت اہمیت اختیار کر گئی، جب سلامتی کے ذمہ دار ملکی اداروں نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ اپوزیشن جماعتوں کے کارکن جنگی جرائم کی ملکی عدالت کے اُس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے، جس میں1971ء میں پاکستان سے آزادی کی تحریک کے دوران تشدد کے واقعات میں ملوث مبینہ ملزمان کو سزائیں سنائی گئی تھیں۔
اس سال کے آغاز پر سیاسی احتجاج کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہوا اور اپوزیشن نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ بنگلہ دیش میں سرگرم انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں کئی سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان تنظیموں نے مظاہرین کے خلاف ان اداروں کی ظالمانہ کارروائیوں پر شدید تنقید بھی کی ہے۔ سیاسی احتجاج کے علاوہ ملک میں اغوا اور ماورائے عدالت قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی ان تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
رواں برس مئی کی 15 تاریخ کو انسانی حقوق کے کارکن نور خان کو دارالحکومت ڈھاکا میں اغوا کرنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے نور خان نے بتایا کہ وہ ریپڈ ایکشن بٹالین ’آر اے بی‘ کی ملکی معاملات میں مبینہ مداخلت اور کردار سے متعلق چھان بین کر رہے تھے۔ آر اے بی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ دو برسوں کے دوران قتل اور اغوا کے متعدد واقعات میں ملوث رہی ہے۔
اس تناظر میں ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ’ اے ایچ آر سی‘ اور ہیومن رائٹس واچ’ ایچ آر ڈبلیو‘ نے ایک مشترکہ بیان میں ڈھاکا حکومت سے اس بٹالین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم دوسری جانب ملکی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی ملکی اور غیر ملکی تنظیمیں مختلف سیاسی مفادات کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم کے اس بیان کا نتیجہ ان تنظیموں کے متعدد کارکنوں کی گرفتاری کی صورت میں نکلا۔
بنگلہ دیش میں سرگرم انسانی حقوق کی تنظیمیں ذرائع ابلاغ ، بلاگرز اور حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد کے خلاف بنائے گئے ایک متنازعہ قانون کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہیں۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایشیا شاخ کی سربراہ میناکشی گنگولی نے ڈوئچے ویلےکو بتایا کہ ملک میں اطلاعات و نشریات کے موجودہ ایکٹ کو بلاگرز اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اطلاعات ہیں کہ حکومت ایک نیا قانون تیار کر رہی ہے اور اگر وہ لاگو ہو گیا تو اسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے کام کرنا اور بھی دشوار ہو جائے گا۔