بنگلہ دیش، مزارات پر حملوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ
6 ستمبر 2025بنگلہ دیش کی پولیس نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ اس نے سینکڑوں انتہا پسند افراد کی جانب سے ایک 'مذہبی رہنما‘ کی قبر کی بے حرمتی کے دوران ایک شخص کی ہلاکت کے بعد ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ سال اگست میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک درجنوں مزارات پر حملے کیے جا چکے ہیں۔
اپنی نوعیت کے لیکن یہ منفرد واقعہ گزشتہ روز وسطی بنگلہ دیش میں پیش آیا جب ایک حملے کے نتیجے میں ایک قبر کھود کر لاش کی بے حرمتی کی گئی اور اس کے بعد دو مخالف گروہوں میں تصادم ہوا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ مذہبی رہنما نورالحق مولا کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے آگ لگا دی گئی۔
راجباری کے ضلعی پولیس سپریٹنڈنٹ ایم قمر الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے مجرموں کی تلاش شروع کر دی ہے اور اس معاملے میں کسی کے ساتھ نرمی نہیں برتی جائے گی۔‘‘
بنگلہ دیش میں سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان اس واقعے کے بعد سخت رنج کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول، ''اس قبر کا پتھر خانہ کعبہ سے مشابہت رکھتا تھا۔‘‘
اس قبر میں مولا نامی شخص دفن تھے، جنہیں نورا پگلا یا "پاگل نورا" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک مقامی صحافی اعزاز احمد نے کہا کہ اگست میں ان کی وفات کے بعد انہیں راجباری میں ان کی درگاہ ہی میں دفن کیا گیا تھا لیکن ان کی تدفین سنی مسلمانوں سے مختلف طریقے سے ہوئی تھی۔
ملا کے حامیوں نے قبر میں تبدیلی کا وعدہ کیا تھا لیکن ایک اور مسلک سے تعلق رکھنے والے سخت گیر اسلام پسند گروہ، جسے ایمان عقیدہ رکشا کمیٹی کہا جاتا ہے، کے ارکان نے جمعہ کو نماز ظہر کے بعد مقبرے پر دھاوا بول دیا۔
اسلام نے کہا، ''تقریباً دو ہزار لوگوں نے ہتھوڑوں اور لاٹھیوں سے نورالحق کے مزار پر دھاوا بولا اور قبر کو نقصان پہنچایا۔‘‘
ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ حملہ آوروں اور مولا کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک اور 50 کے قریب زخمی ہوئے ہیں جن میں سے تین کی حالت نازک ہے۔
پولیس نے ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت 28 سالہ رسل مولا کے طور پر کی ہے، جو مزار کا متولی تھا تاہم اس کا قبر میں دفن مولا سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔
نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے مزار کی بے حرمتی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ''غیر انسانی اور قابل نفرت عمل‘‘ قرار دیا۔
حکومتی بیان میں کہا گیا، ''عبوری حکومت قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے اور موت کے بعد بھی انسانی تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔‘‘
یونس اور ان کی انتظامیہ کو بھی انتہا پسند لوگوں کو اس طرح کے واقعات سے روکنے میں ناکامی پر تنقید کا سامنا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن ابو احمد فیض الکبیر نے کہا کہ مزارات کی بے حرمتی ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت کے پھیلنے رجحان کا تسلسل ہے۔
کبیر نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے ثقافتی پروگراموں کو روکنے کی کوششیں، اسکولوں میں موسیقی کے اساتذہ کی بھرتی پر منفی ردعمل اور صوفی مزاروں پر توڑ پھوڑ عام ہوتی دیکھی ہے۔‘‘
ادارت عاطف توقیر