بنگلہ دیش رائفلز بغاوت، 152 کو سزائے موت
5 نومبر 2013152 فوجیوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے جبکہ دیگر 160 کو چار سال پہلے کی اس بغاوت میں اُن کے کردار پر عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ 263 فوجیوں کو تین سال سے دس سال تک کی قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں جبکہ 271 کو یہ کہہ کر بری کر دیا گیا ہے کہ اُن کے خلاف اس بغاوت میں ملوث ہونے کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔
پچیس اور چھبیس فروری 2009ء کو ہونے والی اس بغاوت کے دوران 74 افراد کو اس بری طرح سے قتل کیا گیا تھا کہ اُن کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے تھے یا اُنہیں بے پناہ جبر و تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ جلا دیا گیا تھا۔ مرنے والوں میں 57 فوجی افسران بھی شامل تھے۔
آج جب دارالحکومت ڈھاکہ میں حاضرین سے بھرے ہوئے کمرہء عدالت میں سیشن جج محمد اختر الزماں نے مقدمات کے فیصلے سنانے کا آغاز کیا تو اُنہوں نے کہا، یہ جرائم اتنے بھیانک تھے کہ لاشوں کو بھی اُن کے حقوق نہیں دیے گئے۔
اس سے پہلے 823 فوجیوں کو، جنہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں، خاص طور پر تیار کیے گئے کمرہء عدالت میں لایا گیا تھا۔ یہ فوجی خاموشی کے ساتھ قطار در قطار بینچوں پر بیٹھے تھے۔ اسی عدالت میں اُن دَس فوجی افسروں کے لواحقین بھی موجود تھے، جنہیں اس بغاوت کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
استغاثہ نے ان 823 فوجیوں میں سے زیادہ تر کے لیے سزائے موت تجویز کی تھی۔ ان فوجیوں پر قتل، تشدد، سازش اور کئی دیگر الزامات عائد کیے گئے تھے، جن کے وہ بنگلہ دیشی رائفلز (BDR) کے ہیڈ کوارٹرز میں اپنی تیس گھنٹے سے زائد دیر تک جاری رہنے والی بغاوت کے دوران مرتکب ہوئے تھے۔
سرکاری سطح پر اس بغاوت کے سلسلے میں کی جانے والی تحقیقات کے مطابق عام فوجی اپنی تنخواہوں اور اپنے ساتھ ہونے والے عمومی سلوک سے غیر مطمئن تھے اور بہتر تنخواہیں پانے والے اپنے افسران سے سخت نفرت کرنے لگے تھے۔ یہ فوجی بہتر تنخواہوں کے لیے ایک عرصے سے درخواستیں دے رہے تھے اور ان درخواستوں کے نظر انداز ہونے کے بعد اُن کے اندر ہی اندر غم و غصے کی وجہ سے ایک لاوا پک رہا تھا۔
آج یہ فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر پولیس اور خصوصی سکیورٹی دستے ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) کے تقریباً دو ہزار ارکان عدالت کے باہر تعینات کیے گئے تھے۔
اس مقدمے کی کارروائی جنوری 2011ء میں شروع ہوئی اور گزشتہ سال اکتوبر میں اپنے اختتام کو پہنچی۔ سرکردہ وکیل استغاثہ بہا رالاسلام نے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا مقدمہ تھا، جس میں استغاثہ کی جانب سے 654 گواہ پیش کیے گئے۔
2009ء کے اس واقعے میں باغی فوجیوں نے اندازاً ڈہائی ہزار ہتھیار چُرا لیے تھے، جن سے لیس ہو کر اُنہوں نے BDR کے چوٹی کے افسران کے سالانہ اجلاس پر دھاوا بول دیا تھا۔ قریب سے فائرنگ کرتے ہوئے جن افسران کو ہلاک کیا گیا، اُن میں BDR کے سربراہ میجر جنرل شکیل احمد بھی شامل تھے۔
باغیوں نے اسی ہیڈ کوارٹر میں واقع میجر جنرل شکیل احمد کی رہائش گاہ پر بھی حملہ کیا تھا اور اُن کی اہلیہ، گھریلو ملازمین اور وہاں موجود مہمانوں کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔ اس رہائش گاہ سے قیمتی سامان اور طلائی زیورات لوٹنے کے بعد اس عمارت کو آگ لگا دی گئی تھی۔
یہ بغاوت جب پھیلنا شروع ہوئی تو اُس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی نئی نئی قائم ہونے والی حکومت بھی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ تب اس حکومت کو برسرِاقتدار آئے ایک ہی مہینہ ہوا تھا۔
اس بغاوت میں حصہ لینے کے الزام میں، جو تب بنگلہ دیش رائفلز کے ہیڈ کوارٹر کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں BDR کے دیگر مراکز تک بھی پھیل گئی تھی، اب تک درجنوں خصوصی عدالتیں تقریباً چھ ہزار فوجیوں کو پہلے ہی سزائیں سنا چکی ہیں۔
جن 823 فوجیوں کو آج سے سزائیں سنانا شروع کی گئی ہیں، یہ وہ ہیں، جن پر BDR کے ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بولنے کے الزام میں ایک سویلین عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ فوجی عدالتیں اس بغاوت میں اِن فوجیوں کے کردار پر اِنہیں پہلے ہی قصور وار قرار دے چکی تھیں۔ 23 شہریوں پر بھی مجرمانہ سازش کے الزامات عائد کیے گئے۔
دریں اثناء BDR کا نام تبدیل کیا جا چکا ہے اور اب یہ بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (BGB) کہلاتی ہے۔ یہ وہ سکیورٹی فورسز ہیں، جو بنگلہ دیش کی سرحدوں پر فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ BGB کے موجودہ سربراہ میجر جنرل عزیز احمد نے آج سنائی جانے والی سزاؤں پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
یہ عدالتی فیصلے ایک ایسے وقت سنائے گئے ہیں، جب بنگلہ دیش ایک بڑے سیاسی بحران پر قابو پانے میں مصروف ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اقتدار سے رخصت کرنے کے لیے اپوزیشن کی طرف سے جاری مہم کے دوران اب تک تقریباً بیس افراد مارے جا چکے ہیں۔ پچیس اکتوبر سے جاری اس مہم کے دوران بنگلہ دیشی اپوزیشن نے کل سے ایک ملک گیر ہڑتال شروع کر رکھی ہے، جس کا آج منگل کو دوسرا دن ہے۔