بنگلہ ديش ميں بدامنی کی تازہ لہر، سينکڑوں افراد گرفتار
10 فروری 2025بنگلہ ديش کی پوليس نے ملک گير سطح کے ايک وسيع تر آپريشن ميں تيرہ سو سے زائد افراد کو حراست ميں لے ليا ہے۔ زير حراست ملزمان پر بدامنی پھيلانے کا الزام ہے اور ان کا تعلق سابق وزير اعظم شيخ حسينہ کی پارٹی عوامی لیگ سے بتايا جا رہا ہے۔ اس آپريشن کے ليے 'شيطان کا شکار‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔
پوليس کے ترجمان انعام الحق ساگر نے پير کے روز بتايا کہ ہفتے کے دن سے شروع ہونے والے اس آپريشن ميں آخری خبریں ملنے تک 1,308 افراد کو گرفتار کيا جا چکا تھا۔ ڈھاکہ میں ملک کی عبوری حکومت ميں وزارت داخلہ کی قيادت کرنے والے جہانگير عالم چوہدری نے کہا ہے کہ 'شيطانوں سے نمٹے جانے تک‘ يہ آپريشن جاری رہے گا۔
بنگلہ دیش: مظاہرین نے شیخ حسینہ کے گھر کو آگ لگا دی
شیخ حسینہ کے اشتعال انگیز بیانات پر بھارتی ہائی کمشنر کو احتجاجی نوٹ جاری
پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین فوجی تعاون پر بھارت کو گہری تشویش
بنگلہ ديش ميں طلبہ کی قيادت ميں ملک گير سطح کی حکومت مخالف تحريک کے دوران گزشتہ برس اگست ميں شيخ حسينہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گيا تھا۔ تاہم بدامنی کا سلسلہ ابھی تک رکا نہيں ہے۔
تازہ کشيدگی کا آغاز پانچ فروری کو ہوا، جب مظاہرين نے شیخ حسينہ کے خاندان سے منسلک عمارات اور ديگر تنصيبات کو نقصان پہنچايا۔ يہ احتجاج ايسی رپورٹوں کے بعد شروع ہوا کہ شیخ حسينہ فيس بک پر خطاب کرنے والی ہيں۔ اس وقت 77 سالہ سابق وزير اعظم شیخ حسينہ پر 'انسانيت کے خلاف جرائم‘ کے الزامات ہيں اور وہ اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے فرار ہو کر گزشتہ برس اگست میں ہی بھارت چلی گئی تھيں۔ تب سے وہ بھارت ہی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہيں۔
تازہ بد امنی ميں شيخ حسينہ کے والد اور ملک کے پہلے صدر شيخ مجيب الرحمان کے سابق گھر اور اب ايک ميوزيم کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا۔ اس پر شہری حقوق کے ليے سرگرم کارکنوں نے کافی شور مچايا۔ علاوہ ازيں شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی ليگ کے حاميوں اور ان کے مخالفين کے مابين تصادم کی بھی رپورٹيں ہيں۔ پوليس نے ان تازہ واقعات کی تمام تر ذمہ داری شيخ حسينہ پر عائد کی ہے۔
ملک کے عبوری سربراہ حکومت محمد يونس نے گزشتہ جمعے کے روز عوام سے پر امن رہنے کی اپيل کی تھی۔ اس کے کچھ گھٹنے بعد شيخ حسينہ کے خلاف طلبہ تحريک چلانے والے گروپ 'اسٹوڈنٹس اگينسٹ ڈسکريمينيشن‘ کے چند ارکان پر ڈھاکہ کے ضلع غازی پور ميں حملہ ہوا تھا۔ يہ ايک طاقت ور گروپ ہے، جس کی نمائندگی اب کابينہ ميں بھی ہے۔
اس حملے کے بعد اس گروپ کے ارکان نے عوامی ليگ کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کيا تھا۔ حکومت نے بھی تصديق کر دی ہے کہ کارروائی کا آغاز 'سابق آمرانہ حکومت سے منسلک گروہوں کے حملے‘ کے بعد کيا گيا۔
عبوری حکومت کے سربراہ محمد يونس کے مشير برائے ذرائع ابلاغ شفيق الاسلام نے بتايا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر نگاہ رکھنے کا کام حکومت نے ايک خصوصی کمانڈ سينٹر کی ٹيم کے حوالے کر ديا ہے۔
دوسری جانب اس آپريشن کے حوالے سے ملک میں تشويس بھی پائی جاتی ہے۔ سپريم کورٹ کے ايک وکيل سنہادری چکرورتی کا کہنا ہے کہ وسيع پيمانے پر گرفتاريوں ميں بے قصور افراد بھی پھنس سکتے ہيں اور ايسا کرنے سے اصل مسئلہ حل نہيں ہو گا۔
ع س / م م (اے ایف پی، اے پی)