بنگلہ ديش ميں انتخابات مزيد بد امنی کا سبب بن سکتے ہيں، تجزيہ کار
3 جنوری 2014روايتی طور پر حکومت نواز مانے جانے والے بنگلہ ديشی اخبار ڈھاکہ ٹريبيون کے آج جمعے کے روز شائع ہونے والے ايک پول کے نتائج کے مطابق ملک ميں مجموعی ووٹروں ميں شامل 77 فيصد ووٹر مرکزی اپوزيشن جماعت بنگلہ ديش نيشنلسٹ پارٹی کی شرکت کے بغير ان انتخابات کے انعقاد کے خلاف ہيں۔ اسی سروے کے مطابق اگر بنگلہ ديش نيشنلسٹ پارٹی ان اليکشن ميں حصہ ليتی ہے، تو اسے معمولی سے فرق سے کاميابی حاصل ہو سکتی ہے۔
قبل ازيں جمعرات کے روز انتخابی مہم کے اپنے آخری خطاب ميں وزير اعظم شيخ حسينہ واجد نے اس عزم کا اظہار کيا کہ وہ آئندہ دہائی کے اختتام تک ملک کو درپيش توانائی کے بحران کے خاتمے سميت معيشت ميں بہتری لاتے ہوئے ملک کو درميانے درجے کی آمدنی والے ايک ملک ميں تبديل کر ديں گی۔ اپنی اسی تقرير ميں وزير اعظم نے بی اين پی کی سربراہ اور سابق وزير اعظم خالدہ ضياء کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہوئے ملک ميں جاری ہڑتالوں اور ہلاکتوں کی ذمہ داری ان پر عائد کی۔
بنگلہ ديش ميں مرکزی اپوزيشن جماعت بی اين پی سميت کل اکيس جماعتوں نے اتوار پانچ جنوری کے روز ہونے والے عام انتخابات کے بائيکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس کے نتيجے ميں عوامی ليگ کے اميدواروں کو کل تين سو نشستوں ميں سے ايک سو ترپن نشستوں پر کسی مدِ مقابل کا سامنا نہيں ہے۔
بنگلہ ديش ميں گزشتہ برس اکتوبر سے لے کر اب تک ايک سو چاليس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں، جبکہ ملک ميں جاری سياسی تنازعات، ہڑتالوں اور فسادات کے سبب ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد پانچ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ سن 2013 کو سياسی تنازعات کے تناظر ميں ملک کا سب سے خونريز سال قرار ديا گيا۔ وہاں جماعت اسلامی کے چند سياستدانوں کے خلاف سن 1971 کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے الزامات کے تحت چلائے جانے والے مقدمات اور سزائيں شديد بد امنی کا سبب بنی ہوئی ہيں۔ اسی سبب ملک ميں اسلام پسند دھڑوں اور سکيورٹی دستوں کے مابين جھڑپوں کا سلسلہ چلتا آيا ہے۔
بنگلہ ديش ميں بد امنی، پر تشدد واقعات اور اپوزيشن کے ہزاروں کارکنان کی گرفتاريوں کے سبب امريکا اور يورپی يونين شديد تشويش کا شکار ہيں اسی ليے انہوں نے اليکشن کے ليے اپنے مبصرين بھيجنے سےانکار کر ديا ہے۔
ڈھاکہ يونيورسٹی سے وابستہ پروفيسر امتياز احمد کا کہنا ہے کہ انتخابات کا نتيجہ تقريبا يقينی ہونے کی وجہ سے ان انتخابات کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے متنبہ کيا کہ انتخابات کے بعد ہڑتالوں اور فسادات کی صورت ميں مزيد بد امنی پھيلنے کے امکانات ہيں۔ پروفيسر امتياز احمد کا کہنا ہے، ’’اگر مفاہمت کی فضا پيدا نہ ہوئی تو تشدد ميں مزيد شدت پيدا ہو سکتی ہے۔‘‘
دريں اثناء ڈھاکہ کے پاليسی ريسرچ انسٹيٹيوٹ سے وابستہ احسن ايچ منصور کا بھی کچھ ايسا ہی ماننا ہے کہ اليکشن حالات ميں مزيد بگاڑ پيدا کر سکتے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’کسی بھی جمہوری عمل ميں اپوزيشن کا ہونا لازمی ہے۔ اگر اپوزيشن کو ڈرايا، دھمکايا اور دبايا جائے اورکمزور بنا ديا جائے، تو اس سے انتہا پسندی جنم ليتی ہے ہمارے ملک ميں يہ اسلامی انتہا پسندی کی صورت ميں سامنے آئی ہے۔‘‘