بن لادن کی ہلاکت کا رد عمل محدود، ماہرین کا تجزیہ
30 اپریل 2012طالبان سے متعلقہ امور کے پاکستانی ماہر احمد رشید نے اسامہ بن لادن کی موت کے فوراً بعد جرمن روزنامے ’برلینر سائی ٹنگ‘ کے لیے اپنے ایک تجزیے میں لکھا تھا کہ ’اب سینکڑوں سوگوار جہادی اپنی جانوں پر کھیل کر بن لادن کی موت کا بدلہ لینے کی قسم کھائیں گے‘۔ تاہم رشید اور سکیورٹی امور پر نظر رکھنے والے کئی دیگر ماہرین کے خدشات کے برعکس بن لادن کی موت پر محض محدود رد عمل ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے جرمن ماہر گیڈو شٹائن برگ کے خیال میں ’القاعدہ کو بڑا نقصان یہ ہوا کہ اُس کی قیادت کرنے والی ایک انتہائی اہم شخصیت کو راستے سے ہٹا دیا گیا اور اُس شخصیت کا ابھی تک کوئی مناسب متبادل بھی نہیں مل سکا ہے‘۔
القاعدہ کا موجودہ سربراہ ایمن الظواہری نوے کے عشرے سے بن لادن کا نائب تھا لیکن شٹائن برگ کے خیال میں وہ بن لادن کی طرح کسی کرشماتی شخصیت کا مالک نہیں ہے۔ ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے اِس جرمن ماہر نے بتایا:’’اسامہ بن لادن محض اپنی شخصیت ہی کے ذریعے عرب اور مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیائی نوجوانوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا، الظواہری میں یہ بات نہیں ہے۔ اُس کا احترام تو کیا جاتا ہے لیکن اُسے اسامہ بن لادن کی طرح چاہا نہیں جاتا۔‘‘
شٹائن باخ کے مطابق ’بن لادن کی موت کے بعد القاعدہ کے اندر مختلف دھڑوں کے مابین کشمکش شدت اختیار کر گئی ہے۔ الظواہری کو شروع سے ہی القاعدہ کے اندر اُس مصری دھڑے کا نمائندہ مانا جاتا ہے، جسے دیگر دھڑے پسند نہیں کرتے‘۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں القاعدہ کی نئی قیادت اپنی سلامتی کے ڈر سے بھی زیادہ سامنے نہیں آ رہی۔ شٹائن برگ کے خیال میں ایسے میں آنے والے مہینوں اور برسوں میں دیکھنا یہ ہے کہ اِس دہشت گرد تنظیم کی ’وہ قیادت آگے چل کر کیا کردار ادا کرے گی، جو ایران میں نظر بند تھی اور جسے 2009ء سے وہاں نقل و حرکت کی کافی آزادی حاصل ہے‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ ساتھ اب عراق اور یمن بھی القاعدہ کے نئے مراکز کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ نائجیریا میں بوکو حرام اور صومالیہ میں الشباب جیسی دہشت گرد تنظیمیں بھی زور پکڑتی جا رہی ہیں۔
اِدھر یورپ میں اسلامی انتہا پسندانہ سوچ کے حامل شدت پسندوں کی ایک نئی قسم سامنے آ رہی ہے۔ مارچ میں فرانس میں محمد میراہ نے پولیس کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارے جانے سے پہلے تین روز کے اندر اندر سات افراد کو قتل کر دیا تھا۔ وہ خود کو القاعدہ کا قریبی ساتھی بتاتا تھا۔ اِسی طرح کے نظریات اُس عسکریت پسند کے بھی تھے، جس نے فروری 2011ء میں فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر دو امریکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور جسے اس سال فروری میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ ایسے میں یورپ میں اُن انتہا پسندوں کی جانب سے خطرہ بڑھ رہا ہے، جو کسی دہشت گرد گروپ سے تعلق یا کسی کے احکامات کے بغیر بھی صرف انٹرنیٹ کی وساطت سے جہادی بنتے جا رہے ہیں۔ یورپی یونین کے رکن ملکوں میں اس طرح کے جہادیوں کی تعداد کا اندازہ تقریباً چار سو لگایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر غالباً جرمنی، فرانس، برطانیہ اور بیلجیم میں ہیں۔
scheschkewitz/aa/ia