بن لادن، مسلم دنیا میں منقسم آراء
30 اپریل 2012جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ایک جائزے میں افغان دارالحکومت کابل میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے لیے کام کرنے والے تیس سالہ علی صدیق کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب اُس نے ایک سال قبل پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر سنی تھی تو اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے۔ اُس روز اُس نے دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ علی صدیق بن لادن کو ایک ’عظیم ہیرو‘ مانتا تھا اور اب بھی وہ یہی کہتا ہے کہ ’شیخ اسامہ ایک اچھا آدمی تھا، جو کافروں کے خلاف ایک اچھے مقصد کے لیے لڑا، پہلے روسیوں اور پھر امریکیوں کے خلاف‘۔
علی صدیق کے برعکس سعودی اسکول ٹیچر محمد الحماد کے خیال میں بن لادن اسلام اور اُس کے پیروکاروں کا ایک برا نمائندہ ثابت ہوا: ’’اُس نے سعودی عرب کے نام پر بھی بٹہ لگایا، جہاں اسلام نے جنم لیا تھا۔‘‘ اسامہ بن لادن پہلے سعودی شہری تھا، یہاں تک کہ اِس ملک نے اُس کی شہریت منسوخ کر دی۔
اس اسکول ٹیچر کے برعکس انتہائی قدامت پسندانہ سلفی نظریات رکھنے والے ایک سعودی شہری نے، جس نے اپنا نام صرف مسفر بتایا، کہا کہ ’یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ امریکا کو شیخ اسامہ کو قتل کرنے کی اجازت دی گئی۔ بن لادن ایسا لیڈر تھا، جو اسلام کے دشمنوں کو ہراساں کرنا چاہتا تھا‘۔
یمن کے سیاسی تجزیہ کار نصر طٰحہ نے بن لادن پر اسلام اور مغربی دنیا کے درمیان مسائل کے بیج بونے کا الزام عائد کیا۔ ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا: ’’اُس نے اپنی زندگی ضائع کر دی، وہ اس قابل نہ ہو سکا کہ دوسروں کے ساتھ امن اور مکالمت کے اسلامی اصولوں کو اپنا سکتا یا اُن کی تشہیر کر سکتا۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ بن لادن کی موت کا مطلب دنیا بھر میں جہادی ذہنیت کا خاتمہ نہیں ہے اور یہ کہ بن لادن بدستور ایسے حلقوں میں بھی مقبول ہے، جن کا القاعدہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جہاں تک عرب دُنیا میں اٹھنے والی حالیہ انقلابی لہر کا تعلق ہے، انتہا پسندانہ نظریات کی حوصلہ شکنی دیکھنے میں آئی ہے۔
کراچی کے ایک طالبعلم عمار احمد کا کہنا تھا کہ بن لادن اپنے پیچھے محض تشدد کی روایت چھوڑ گیا ہے: ’’یہ اُسی کا کیا دھرا ہے کہ اسلام اور پاکستان کا تصور مجروح ہوا ہے۔ اُسے وہی کچھ ملا، جس کا وہ مستحق تھا، البتہ اُس کی باقاعدہ تدفین ہونی چاہیے تھی۔‘‘
ایک افغان طالبان کمانڈر کا کہنا تھا کہ بن لادن کی ہلاکت ’دل شکستہ‘ تھی اور یہ کہ اپنی ہلاکت سے پہلے بن لادن نے طالبان کو مالی مدد بھی فراہم کی اور روحانی بھی۔ ایک افغان تجزیہ کار کے مطابق افغانوں کی ایک بڑی تعداد اسامہ بن لادن کو بدستور ایک ’عظیم ہیرو‘ مانتی ہے۔
aa/hk (dpa)