بلوچستان، گورنر راج کے خاتمے پر احتجاج کی دھمکی
31 جنوری 2013امن وامان کی گھمبیر صورتحال کے بعد مرکزی حکومت نے بلوچستان کی مخلوط حکومت کو معزول کر کے گورنز راج کے نفاز کاجو فیصلہ کیا تھا اگرچہ اس فیصلے کے مطلوبہ نتائج اب تک سامنے نہیں آسکے ہیں تاہم آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے اب حکومت نے وہ صدارتی فرمان واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت صوبے میں گورنر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سابقہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے رہنماوں کے ساتھ مختلف امور طے پا گئے ہیں اور توقع ہے کہ حکومت آئندہ اڑتالیس گھنٹوں تک آئین کے آرٹیکل دو سو چھتیس کے تحت بلوچستان سے گورنر راج کا خاتمہ کر کے صوبائی اسمبلی کو دوبارہ یہ اختیارات منتقل کر دے گی۔ جس کے تحت وہاں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا چناؤ عمل میں آ سکے گا اور اس کے بعد ان کی مشاورت سے ہی صوبے میں نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔
’اسمبلی کی بحالی ضروری‘
سیاسی تجزیہ کار ندیم خان کہتے ہیں اس وقت حکومت کے پاس اس کےعلاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ صوبے میں گورنر راج کا خاتمہ کر کے آئینی تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ’’ اسمبلی کی بحالی ضروری ہے اور یہ آئینی تقاضا ہے کہ حکومت بلوچستان اسمبلی کو با اختیار بنائے تاکہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا چناؤ عمل میں لایا جا سکے اور وہ بعد میں اقتدار نگران حکومت کو منتقل کر دیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ ایک غیر آئینی اقدام تصور کیا جائے گا۔‘‘
جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما مولانا عبدالحق ہاشمی کا مؤقف ہے کہ حکومت کو بلوچستان میں گورنر راج کا فیصلہ واپس لینے سے قبل اس بات کی وضاحت کرنا ہو گی کہ یہ فیصلہ بغیر کسی سیاسی دباؤ اور آئینی ضرورت کے پیش نظر کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’حکومت عوام کے سامنے تمام حقائق واضح کرے۔ ان پیچیدگیوں کا احاطہ کیا جائے جو کہ نگران حکومت کی قیام کی راہ میں حائل ہیں اور عوام کو یہ بتایا جائے کہ صوبائی حکومت کی دوبارہ بحالی کا فیصلہ کسی بھی سیاسی دباؤ یا بلیک میلنگ کے نتیجے میں نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کی پشت پر نگران حکومت کے بنانے میں جو آئینی مشکلات ہیں ان کو دور کرنا مقصود ہے۔‘‘
احتجاج کی دھمکی
بلوچستان کی شیعہ کمیونٹی اور اپوزیشن جماعتوں نے صوبے میں گورنر راج کے قبل از وقت خاتمے کے متوقع فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور واضح کیا ہے کہ اگر سابقہ حکومت دوبارہ بحال کی گئی تو اس کے خلاف سخت احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔
اپوزیشن جماعتوں کی اس احتجاجی تحریک میں شامل پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر قاسم خان سوری نے ڈویچے ویلے کو بتایا کہ اپوزینش جماعتوں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ حکومت سیاسی دباؤ میں آنے کے بجائے بلوچستان میں حالات کی بہتری کے لیے گورنر راج کے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔
انہوں نے کہا، ’’ہمارا مشترکہ اجلاس ہوا ہے۔ اس اجلاس میں تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام نظریاتی، بی این پی مینگل اور دیگر جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی ہے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر گورنر راج ختم کیا گیا تو ہم سڑکوں پر نکلیں گے اور سخت احتجاجی تحریک چلائیں گے۔‘‘
بلوچستان میں سابقہ حکومت کے خاتمے اور گورنر راج کے نفاذ کے فیصلے کو بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے اور اس حوالے سے جمعیت لائرز فورم کی جانب سے ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں عدالت سے یہ استدعا کی گئی ہے کہ مرکزی حکومت کے گورنر راج کے نفاذ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے تاکہ صوبے میں آئینی بحران ختم ہو سکے۔
رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ
ادارت: عاطف بلوچ