بلوچستان کے مسائل: حکومتی رویہ
2 اگست 2012رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں امن و امان کی دن بدن بگڑتی صورتحال کے بارے میں قومی سطح پر تشویش کا اظہار تو کیا جا رہا ہے لیکن عملی طور پر حالات میں بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔ بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگی ، ٹارگٹ کلنگ ، اغواء برائے تاوان، فرقہ وارانہ قتل و غارت اور سکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں کے حملے روزانہ کا معمول ہیں۔
سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صوبے میں ان حالات کا ذمہ دار بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو ٹھہراتے ہیں جواب میں بلوچ علیحدگی پسندوں اور قوم پرستوں کے علاوہ سول سوسائٹی اور وکلاء سکیورٹی فورسز خصوصاً ایف سی کو بھی صوبے کے خراب حالات کا بڑا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
مختلف حکومتوں کی جانب سے بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ہیں لیکن ان کا کوئی بھی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ آج کل بھی پاکستانی سینٹ یعنی ایوان بالا میں بلوچستان کی صورتحال پر بحث جاری ہے۔
بلوچستان میں سیاسی طور پر اہم تصور کی جانے والی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عبدالغفور کا کہنا ہے کہ وہ پہلے بھی اس طرح کے پارلیمانی مباحثوں میں حصہ لے چکے ہیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا ‘‘بلوچستان میں جو اقدامات ہوئے ہیں وہ بلوچستان کو جوڑنے کے لیے نہیں بلکہ یہ علیحدگی کی طرف دھکیلنے کے لیے ہیں۔آج سینٹ میں بلوچستان کی صورتحال پر بحث ہوگی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ صرف بحث ہو گی کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آئے گا۔ بلوچستان پیکج اور بہت سی چیزیں سامنے آئیں لیکن ان کے اندر ہمیں کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی کہ مسئلہ بلوچستان کسی بہتر حل کی طرف جائے۔''
بلوچ قوم پرستوں کا مسئلہ بھی آئے دن شدت اختیار کر رہا ہے۔ قوم پرست تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومتی رویہ انہیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ بھی علیحدگی کا مطالبہ کریں۔ حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی بھی اس بات سے متفق ہیں کہ بلوچوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ طاہر مشہدی نے کہا کہ ‘‘ان کے حقوق آج تک نہیں دیئے گئے ، ان کو عزت سے آج تک نہیں دیکھا گیا۔ پولیس ، رینجرز یا یہ جو ایف سی ہے یا فوج کے آپریشن کیے گئے ہیں۔ کیوں کیے گئے ہیں وہ بھی پاکستانی ہیں جیسا کہ پنجابی پاکستانی ہیں، سندھی پاکستانی ہیں، پختون پاکستانی ہیں۔ ان کے ساتھ بھی بالکل پاکستانیوں جیسا سلوک کیا جائے۔ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے وہ محب وطن لوگ ہیں وہ پاکستان کو چاہتے ہیں ، پاکستان میں خود آئے تھے۔ وہ پاکستان کے طاقت والے اور عزت والے اور غیرت مند لوگ ہیں۔ان کے معاملے اب حل کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔ سینٹ میں ہم دو دن بحث کریں گے اور انشاء اللہ ٹھوس تجاویز پیش کریں گے کہ خدا کے لیے یہ باتیں، یہ تقریریں اور یہ وعدے کرنا اب بند کر دو اور اب جا کر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرو۔''
پاکستان میں حکومتی عہدیدار اور سرکاری افسران بیرونی مداخلت کو بھی بلوچستان میں حالات کی خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ البتہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ بیرونی مداخلت کو جواز بنا کر حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریوں سے مبرا نہیں ہو سکتے۔ مسلم لیگ ق کی بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کلثوم پروین کا کہنا ہے کہ ‘‘ہم پنگا لیتے ہیں ناں پوری دنیا سے تو لوگ بھی ہمارے ساتھ پنگے لیتے ہیں۔ ہمارا ایران کے ساتھ بھی یہ جندولہ والا کیا معاملہ تھا؟ کسی کے ملک میں مداخلت کرنا کونسی اخلاقیات سکھاتی ہیں۔ ایک مسلمان ملک ہے ۔ افغانستان کے ساتھ ہم نے جہاد کے نام پر کیا کچھ کیا ہے ۔ کیا اب وہاں سے لوگ ہمارے خلاف نہیں اٹھیں گے۔یقیناً اٹھیں گے۔''
حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں اور دیگر قوتوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اب تک جس طرح سے معاملات چلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں وہ طریقہ ناکام ہوا ہے۔ خواجہ آصف نے بلوچستان حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘بلوچستان کی سیاسی قیادت بالکل ناکام ہو چکی ہے، نہ ہی وہ اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں ۔ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ وہ ضرور کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ملکی سیاسی قیادت اور خاص طور پر اس علاقے کی قیادت کو آگے بڑھنا چاہیے اور بلوچستان کو ملک سے علیحدہ ہونے سے روکنا چاہیے ۔''
پاکستانی سپریم کورٹ بھی گزشتہ ایک سال سے بلوچستان میں امن و امان کی خرابی سے متعلق مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔ عدالت کی جانب سے بارہا خفیہ ایجنسیوں، پولیس اور ایف سی حکام سے جواب طلبی کی گئی اور انہیں دی گئی ہدایات کے باوجود بھی بدامنی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بہتری لانے کے لیے حکومت کو خرابی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ان کا الگ الگ حل نکالنا ہوگا تا کہ صوبے میں تمام مزاحمتی قوتوں کے تحفظات دور کر کے پرامن معاشرے کی تشکیل دی جا سکے۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: کشور مصطفیٰ