بلوچستان: کالعدم تنظیموں کے ساتھ ممکنہ مکالمت
30 جولائی 2013صوبائی حکومت کی جانب سے یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے ترجیہی بنیادوں پر اقدامات کرے گی۔ بلوچستان کی آزادی کے لیے برسرپیکار کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں اور فرقہ واریت میں ملوث مذہبی گروپوں کے ساتھ مذاکرات کا باضابطہ اعلان کوئٹہ میں وزیر اعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کیا۔
اس موقع پر صوبائی حکومت کی پالیسی واضح کرتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان کے دیرینہ سیاسی مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی اور اس ضمن میں اعلیٰ قبائلی عمائدین اور اراکین اسمبلی پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو کہ ان مذاکرات کا آغاز کرے گی۔
کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا مزید کہنا تھا، ’’یہاں سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے، مسخ شدہ لاشوں کا ہے، ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اور فرقہ وارانہ دہشت گردی جاری ہے۔ یہ سب ہمارے سیاسی مسائل ہیں۔ ہمارا فوکس ہے کہ ہم اپنے بلوچ بھائیوں کو مذاکرات کی میز پر لائیں اور مل کر اس صوبے کے مسائل حل کریں اور کسی کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔‘‘
بلوچ دانشور اور سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار عبد الحکیم بلوچ نے بھی حکومت کے اس فیصلے کو بلوچستان کے مسائل کے حل کے جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا تاہم ان کا خیال ہے کہ حکومت کو اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ڈی ڈبلیوسے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا،’’مجھے توقع ہےکہ قوم پرست مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں کیونکہ اِن کے اُن کے ساتھ روابط ہیں اور وہ اِن کے ساتھی بھی رہے ہیں اور اِن کے ہمدرد بھی ہیں۔ مزاحمت کاروں کو ’آن بورڈ‘ لانا ضروری ہے۔ جب تک اُن کو آن بورڈ نہیں لایا جائے گا اور اُن کے تحفظات دور نہیں ہوں گے، بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ یہ مسائل کئی وجوہات کی بناء پر پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے حل سے ہی بد امنی ختم ہو سکتی ہے۔‘‘
دوسری جانب بلوچستان کی قوم پرست جماعت بی این پی مینگل کے مرکزی رہنما میر جہانزیب جمالدینی کا کہنا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کے ساتھ مذاکرات خوش آئند تو ہیں مگر انہیں یہ امید نہیں ہے کہ ان مذاکرات کےکوئی خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں گے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتےہوئے انہوں نے کہا، ’’ماحول بنے گا تو یہ مسائل حل ہوں گے اور اس وقت ماحول یہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، ڈیتھ اسکواڈ بنائے گئے ہیں، فرقہ واریت ہو رہی ہے۔ وہ لوگ، جنہوں نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ انہیں آزادی کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کس طرح مذاکرات کے لیے راضی کیا جائے گا اور یہ اہم ہےکہ وہ کیسے اس حوالے سے آن بورڈ ہوں گے‘‘۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں بھی ناراض بلوچ رہنماؤں کو کئی بار مذاکرات کی دعوت دی جا چکی ہے لیکن انہوں نے ہمیشہ یہ کہہ کر مذاکرات مسترد کر دیے تھے کہ سب سے پہلے بلوچستان کے لاپتہ افراد کو منظرعام پر لایاجائے اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔