بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ، کوئٹہ میں شیعہ ہلاک شدگان کی تدفین
14 جنوری 2013اس فیصلے کی صدر آصف علی زرداری نے بھی منظوری دے دی ہے۔ گورنر راج کے نفاذ کے بعد شیعہ مظاہرین کی جانب سے ساٹھ گھنٹوں سے زیادہ دیر تک جاری رہنے والا احتجاج ختم کر دیا گیا ہے اور مظاہرین نے منتشر ہونے کے بعد اپنے ہلاک شدہ لواحقین کی تدفین کا کام شروع کر دیا ہے۔
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کوئٹہ میں اتوار کو رات گئے ان شیعہ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کے بعد کیا جو جمعرات کو پیش آنے والے ہولناک دہشت گردانہ حملوں کے بعد شہر میں علمدار روڈ اور دیگر قریبی علاقوں میں گزشتہ ساٹھ گھنٹوں سے 105 میتوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنا دیے ہوئے تھے۔
وزیر اعظم نے شیعہ مظاہرین کے رہنماؤں داؤد ہزارہ، قیوم چنگیزی، عبدالخالق ہزارہ، سردار سعادت علی اور دیگر شخصیات کے ساتھ اپنے مذاکرات کے بعد ایک اعلان میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت بلوچستان میں صوبائی حکومت ختم کر کے وہاں گورنر راج نافذ کیا گیا ہے اور صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد گورنر بلوچستان صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہوں گے۔
وزیر اعظم کے اس فیصلے کی منظوری صدر مملکت آصف علی زرداری نے آج پیر کو باقاعدہ طور پر دے دی۔ گورنر راج کا نفاذ دو ماہ کے لیے کیا گیا ہے۔ بلوچستان شیعہ کانفرنس کے صدر داؤد ہزارہ نے گورنر راج کے نفاذ کوخو ش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے انہیں امید ہے کہ حکومت دہشت گروں کے خلاف سخت کارروائی کر کے انصاف کے تقاضے پوری کرے گی۔ انہوں نے کہا، ‘وزیر اعظم اور وفاقی وزراء نے ہم سے مذاکرات کیے۔ ہمارے مطالبات کو سنا گیا۔ ہم نے حکومت سے ہمارے تحفظ کو یقینی بنانے کے سلسلے میں شدید احتجاج کیا کیونکہ ہمارے ایک ہزار سے زائد لوگ دہشت گردانہ کارروائیوں میں شہید ہو چکے ہیں اور پانچ ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ہم نے ہر وقت امن کی بات کی یہاں قیامت صغریٰ کا سماں ہے۔‘
ادھر ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما بوستان ہزارہ کا کہنا کہ ہے کہ گورنر راج کے نفاذ کے بعد بھی حکومت نے اگر دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کی تو اس کے بعد غیر معینہ مدت تک احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔ انہوں نے کہا، ‘گورنر راج کے نفاذ کے بعد میتیں آج دفنائی جائیں گی۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کس طرح کرتی ہے۔ ہمیں امن چاہیے۔ اگر اب بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ ہوئی، تو ہم دوبارہ احتجاج شروع کریں گے باچا خان چوک پر‘۔
قبل ازیں بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں نے وزیر اعظم سے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بجائے ‘ان ہاؤس‘ تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا جسے وزیر اعظم نے موجودہ حالات کے تناظر میں منظور نہ کیا۔
گورنر راج کے نفاذ کے نو ٹیفیکیشن کے اجراء کے بعد احتجا ج پر بیٹھے ہوئے ہزاروں مظاہرین نے اپنا احتجا ج باقاعدہ طور پر ختم کرتے ہوئے دوہرے خود کش حملوں میں جاں بحق ہونے والے 105 افراد کی لاشوں کو ہزارہ قبرستان مری آباد اور دیگر علاقوں میں دفنانے کا کام شروع کر دیا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔
وزیر اعظم سے مذاکرات کے موقع پر ہزارہ قبیلے کے عمائدین نے کوئٹہ میں فوج کی تعیناتی پر بھی اصرار کیا تھا، جس پر وزیر اعظم نے انہیں بتایا کہ اب کور کمانڈر گورنر بلوچستان کے ماتحت ہیں اور انتظامیہ جب چاہے، فوج کو طلب کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کور کمانڈر ایف سی کے نیم فوجی دستوں کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے اور کوئٹہ میں دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا تاکہ ان کے نیٹ ورک کو ختم کیا جا سکے۔
رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ
ادارت: عصمت جبیں