بلوچستان میں علیحدگی پسند سوچ کی وجہ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
8 مارچ 2012زرمین کے مطابق حال ہی میں ان کے بھائی کا قتل بھی انہیں ان کی جدوجہد ترک کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ زرمین بلوچ کے ساتھ ہی ماہین بلوچ بھی بیٹھی تھیں جو مئی 2011ء میں قتل کردیے جانے والے قمبر چکر کی بہن ہیں۔ ماہین بھی زرمین کی ہم خیال ہیں۔
زرمین کو یقین ہے کہ اس کے 27 سالہ بھائی سنگت ثنا کو جو بلوچ ریپبلکن پارٹی کا رکن تھا، رواں برس فروری میں پاکستانی فوج نے ہلاک کیا۔ یہ وہی وقت تھا جب انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے امریکہ کی بین الاقوامی معاملات سے متعلق سب کمیٹی کے سامنے بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
زرمین نے جو کراچی پریس کلب کے سامنے بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لیے آواز بلند کرنے والے ایک گروپ ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کی طرف سے دھرنے میں شریک تھیں، IPS کو بتایا: ’’13 فروری کو امریکی کمیٹی کی طرف سے نوٹس لینے کے محض ایک ہفتے بعد ثنا کو قتل کر دیا گیا۔‘‘ زرمین کے بقول: ’’ہم نے ثنا کی لاش ملنے سے دو دن قبل ہی بین الاقوامی میڈیا کو بتایا تھا کہ دسمبر 2009ء میں لاپتہ ہونے والے ہمارے بھائی کی گمشدگی کے پیچھے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ اس کے جسم پر 28 گولیوں کے نشانات تھے جبکہ اسے ہیلی کاپٹر سے گرایا گیا تھا۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے گزشتہ کئی برسوں سے اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کی گمشدگی اور ہلاکتوں کے پیچھے سکیورٹی فورسز کا ہاتھ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران 14 ہزار لوگ بلوچستان میں لاپتہ ہوگئے، جبکہ اس دوران 350 لوگوں کی بری طرح تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں، ان میں بدقسمت ثنا بھی شامل ہے۔
مبصرین کے مطابق بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں اور بلوچ عوام کے حقوق نہ دیے جانے کے سبب پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے میں علیحدگی پسندی کی سوچ کو ہوا مل رہی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان / IPS
ادارت: حماد کیانی