بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن
12 اگست 2013وفاقی حکومت کی ہدایت پر شروع کیے جانے والے اس آپریشن میں پولیس کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی فورس کے کمانڈوز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ یہ آپریشن آج پیر کی صبح صوبائی دارالحکومت کوئٹہ، بولان، پیرغیب، کجوری ، مستونگ کرمووڈھ اور دیگر علاقوں میں شروع کیا گیا۔ اس دوران سیکورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں آٹھ شدت پسند ہلاک ہو گئے، جن کا تعلق ایک کالعدم بلوچ مسلح تنظیم سے بتایاجاتا ہے۔
اس کارروائی کے دوران 45 کے قریب عسکریت پسندوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، جن کے قبضے سے غیر ملکی ساخت کا جدید اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہےکاروائی میں انسداد دہشت گردی فورس کے کمانڈوز کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انٹیلیجنس حکام بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اس خصوصی کارروائی کی مرکزی اور صوبائی سطح پر براہ راست نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔
محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف جاری اس کارروائی کو حتمی شکل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اتوارکو دورہء کوئٹہ کے موقع پر دی گئی تھی۔
قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کے دوران چوہدری نثار علی خان نے دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کیا تھا کہ حکومت اپنی رٹ کی بحالی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، ’’پاکستان اور پاکستانیوں کی جان و مال بچانے کے لیے سارے آپشن ہمارے پاس موجود ہیں۔ یہ جو بہت بڑی بیماری ہے عسکریت پسندی اورشدت پسندی کی اس کے خا تمے کے لیے ہمیں سختی کرنا ہو گی اور اب ہم سے زیادہ کوئی سخت قدم نہیں اٹھائے گا جو بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں اور اس کے پھیچے ہوں گے انہیں ہم قوم کے سامنے لائیں گے۔‘‘
چوہدری نثار علی خان نے مزید کہا کہ بلوچستان کی ابتر صورت حال میں بہتری لانا حکومت کی ترجیہات میں شامل ہے اور اگر حالات کی بہتری کے لیے سرکاری اداروں نے بھی کوئی موثر کاروائی نہیں کی تو انہیں بھی اب احتساب کا سامنا کرنا ہو گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،’’وہ لوگ یا وہ ادارے جو میر ی منسٹری یا وفاق کے ماتحت ہیں، میں یقین دلاتا ہوں کہ امن کی بحالی کے لیے ا ن کی کسی غفلت پر خاموش نہیں رہے گے ان کا بھی احتساب ہوگا اور میں آپ کے اور قوم کے سامنے ان کےنام رکھوں گا اور انکوائری بھی انشاء اللہ اوپن ہوگی۔
بلوچستان میں حالیہ پرتشدد واقعات کے بعد کوئٹہ اور صوبے کے دیگر حساس علاقوں میں امن و امان کی بحالی کے لیے انتظامی عہدوں میں بڑے پیمانے پر تقرر و تبادلوں کے لیے ایک سمری تیار کی گئی ہے جس پر عمل درآمد مرکزی حکومت کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔
خیا ل رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کہ دوران کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر اضلاع میں عسکریت پسندوں کے حملوں اور دیگر پر تشدد کاروائیوں کے نتیجے میں 60 سے زائد افراد ہلاک اور سو سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔