بلوچستان میں صحافیوں کے لیے خطرات
20 فروری 2013صحافیوں کے حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیموں نے پاکستان کو صحافیوں کے لیے اُن ملکوں میں سر فہرست قرار دیا ہے، جہاں فرائض کی ادائیگی کے دوران بڑی تعداد میں صحافی قتل کر دیے گئے ہیں۔ ان میں اکثریت کا تعلق شورش زدہ صوبہ بلوچستان سے تھا۔
کم مشاہرے، پیشہ ورانہ سہولیات کی کمی، سیکورٹی خدشات اور دیگر سنگین مسائل سے دوچار پاکستانی ذرائع ابلاغ سے وابستہ بیشتر صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کی راہ میں یوں تو دیگر کئی رکاوٹیں حائل ہیں تاہم ناقدین کے بقول آزادانہ رپورٹنگ کی کوشش بھی ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان کے مختلف حصوں میں مجموعی طور پر 90صحافیوں کو قتل کیا گیا، جن میں سے37 صحافی ٹارگٹ کلنگ 18 صحافی خودکش حملوں جبکہ دیگر صحافی بم دھماکوں اور بعض دیگر پر تشدد واقعات کی کوریج کے دوران جانوں کی بازی ہار گئے۔
’ٹھوس اقدامات کی کمی‘
صحافیوں پر حملوں کے بیشتر واقعات ملک کے شورش زدہ علاقوں میں پیش آئے اور ان علاقوں میں صوبہ بلوچستان سر فہرست رہا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر اور سینئر صحافی ادریس بختیار سے جب ڈی ڈبلیو نے صحافیوں کو درپیش ان پیچیدہ مسائل کی وجوہات پوچھیں تو ان کا کہنا تھا، ’’ صحافیوں کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کبھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے، ہم مسلسل اس بات کو کہتے رہے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں 90 صحافی ملک بھر میں قتل ہو چکے ہیں لیکن آج تک کسی صحافی کے قاتل کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہےاور صحافیوں کے لیے کام کرنا بہت دشوار ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
ناقدین کے بقول اس مایوس کن صورتحال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ قاتلانہ حملوں میں جان بحق ہونے والے صحافیوں کے قاتلوں کی گرفتاری تو درکنار اب تک حکومتی سطح پر ایسے صحافیوں کے خاندانوں کو کوئی مالی معاونت بھی فراہم نہیں کی گئی ہے۔
جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ساوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما ) کے نائب صدر شہزادہ ذوالفقار نے بھی پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کو شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لیے نا سازگار قرار دیا۔
شہزادہ ذوالفقار کے بقول، ’’بلوچستان میں میرے خیال میں صحافی سب سے زیادہ مشکلات سے دوچار ہیں اور ویسے بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پرصحافیوں کے لیے مشکل ترین علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں چار سالوں میں 30 صحافی قتل ہو چکے ہیں، جن میں 19یا 20 ایسے صحافی تھے، جنہیں باقاعدہ ہدف بنا کر کے قتل کیا گیا ہے۔‘‘
ماہرین کے بقول پاکستان میں صحافی صرف انتہا پسندوں دہشت گردوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے حملوں کا نشانہ نہیں بن رہے بلکہ مبینہ طور پر حکومت بھی آزادی صحافت کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے میں پیش پیش رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال بلوچستان میں ایک درجن سے زائد مؤقر اخبارت کے خلاف پولیس نے مقدمات درج کیے ہیں۔
رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ
ادارت: عاطف بلوچ