بلوچستان ميں دو غير ملکی خواتين اغوا
14 مارچ 2013خبر رساں ادارے اے ايف پی کی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے موصولہ ايک رپورٹ ميں مقامی سرکاری اہلکاروں کے ذرائع سے بتايا گيا ہے کہ يہ عورتيں ايران سے پاکستان ميں سياحت کے ليے داخل ہوئيں تھيں۔ انہيں کوئٹہ سے قريب ساڑھے پانچ سو کلوميٹر مغرب کی جانب واقع ايک مقام سے اغوا کيا گيا۔
صوبائی ہوم سيکرٹری اکبر حسين درانی نے نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی تصديق کی اور بتايا کہ دونوں خواتين کا تعلق چيک ری پبلک سے ہے اور وہ بطور سياح پاکستان آئی تھيں۔ اس بارے ميں بات کرتے ہوئے درانی نے مزيد بتايا، ’’مسلح افراد نے ضلع چاغی کے نوک کنڈی نامی علاقے ميں اس بس کو روکا، جس ميں وہ سفر کر رہی تھيں اور دونوں کو اغوا کر ليا۔ صوبائی ہوم سيکرٹری کے بقول مغويوں کے ساتھ سفر کرنے والے ايک مقامی پوليس اہلکار کو بھی اغوا کيا گيا تھا تاہم اسے کچھ دير بعد ہی رہا کر ديا گيا تھا۔
اس سلسلے ميں بدھ کی شب جب پاکستان ميں قائم چيک جمہوريہ کے سفارت خانے سے رابطہ کيا گيا تو سفارتی عملے ميں سے کوئی بھی فوری طور پر اس واقعے کی تصديق کے ليے دستياب نہيں تھا۔ تاہم کوئٹہ ميں ايک سينئر سرکاری اہلکار قمبر دشتی نے واقعے کی تصديق کر دی ہے۔
دريں اثناء نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کی ايک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان ہی ميں بدھ کے روز پوليس کی جانب سے اعلان کيا گيا کہ اس نے گيارہ بچوں کو زير حراست ليا ہے، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ايک عليحدگی پسند گروہ کے ليے کئی مقامات پر بم نصب کيے تھے۔ ان بچوں کی عمريں گيارہ تا اٹھارہ برس کے درميان بتائی جا رہی ہيں اور ان ميں سے آٹھ کو کل ميڈيا کے سامنے پيش بھی کيا گيا۔
کوئٹہ پوليس کے سربراہ زبير محمود نے بتايا کہ ان بچوں کو منگل کی شام شہر کے ايک پارک ميں کی گئی ايک کارروائی کے دوران زير حراست ليا گيا، جبکہ اس دوران آٹھ افراد فرار ہونے ميں بھی کامياب رہے۔ زير حراست بچوں کا تعلق کم مالی وسائل والے گھرانوں سے ہے اور انہيں بم نصب کرنے کے ليے پچاس ڈالر کے برابر مقامی کرنسی ميں ادائيگی کی گئی۔ بچوں نے اعتراف کيا کہ انہوں نے يونائٹڈ بلوچ آرمی کے ليے يہ بم نصب کيے تھے۔ زبير محمود کے بقول گزشتہ سال دسمبر سے اب تک شورش زدہ صوبہ بلوچستان ميں ان بم دھماکوں کے سبب بارہ افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔
(as/ab (Reuters, AP