برما، آزادی کے 65 سال بعد
4 جنوری 2013چار جنوری 1948 کو برما پر برطانوی راج ختم ہو گيا اور ’ريپبلک آف يونين آف برما‘ ايک خود مختار ملک کی حيثيت سے عالمی نقشے پر ابھرا۔ ليکن برما اس پرچم تلے ايک متحد ملک نہيں تھا۔اس کثيرالقومی ملک کے سياسی اور قوميتی مقاصد رکھنے والوں نے اسے خونيں تنازعات کے ايک نہ ختم ہونے والے چکر ميں جھونک ديا۔ آج کے ميانمار کہلانے والے سابق برما کی کوئی حکومت ان لڑائيوں کو ختم کر کے ملک کو ايک اجتماعی تشخص دينے ميں کامياب نہ ہو سکی۔
برما کے غير جانبدار محقق ہانس بيرنڈ سوئلنر نے ڈويچے ويلے کو ديے گئے انٹرويو ميں کہا: ’’1948 ميں آزادی حاصل کرنے والا يہ ملک اس کے بعد سے آج تک مستقل طور پر خانہ جنگی کا شکار ہے۔‘‘ ليکن 2010 ميں بہت سے مبصرين ملک کی سياست ميں تبديلی پر حيران رہ گئے۔ انسانی حقوق کی تنظيم’Burma Campaign کے مارک فارمانرکو ان اصلاحات پر خوشی ہے ليکن انہوں نے يہ بھی کہا: ’’ميانمار کی تصوير ملی جلی ہے۔ ايک طرف تو ڈرامائی اصلاحات ہوئی ہيں اور دوسری طرف قوميتی تنازعات ميں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے کچھ حصوں ميں ترقی ہو رہی ہے ليکن دوسرے علاقوں ميں حالات خراب تر ہو رہے ہيں۔‘‘ دو جنوری کو شمال مشرق ميں فوج اور عليحدگی پسند باغيوں کے درميان جھڑپيں ہوئيں جن ميں فوج نے فضائی حملے بھی کيے۔
فارمانر نے کہا کہ تنازعات ميں اضافے کی وجہ ميانمار حکومت کی بات چيت پر عدم آمادگی ہے۔ سوئلنر کا بھی يہی خيال ہے کہ اصلاحات خاص طور پر فوج کر رہی ہے جس نے بہت احتياط سے ايک منصوبہ بنايا ہے۔ ليکن فارمانر کے برعکس سوئلنر فوج کے اختيارات اپنے ہاتھ ميں رکھنے کوغلط يا برا نہيں سمجھتے۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے 1988 ميں ايک طرح کی جمہوريت لانے کا جو اعلان کيا تھا وہ اسی کے مطابق چل رہی ہے۔ اس نے اصلاحات نافذ کی ہيں۔ تاہم فوج کی اولين ترجيح ملک کی وحدت اور سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔ سوئلنر نے کہا کہ ميانمار کے رياستی اداروں کے بجائے آنگ سان سوچی جيسی مشہور شخصيات پر ساری توجہ دينا مغرب کی ايک غلطی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سارے اداروں کی نئے سرے سے تشکيل کرنا ہوگی کيونکہ فوج کے علاوہ کوئی بھی ادارہ کام نہيں کر رہا ہے۔
R.Ebbighausen,sas/H.Gui,ij