برطانیہ میں انتہاپسندی اور نسلی امتیاز، انکوائری کا مطالبہ
31 مئی 2018برطانیہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم کا نام مسلم کونسل آف برٹن ہے۔ اس کے سیکرٹری جنرل ہارون خان نے حکمران کنزرویٹو پارٹی میں سرایت کر جانے والے مذہبی انتہا پسند اور نسلی تعصب رکھنے والے عناصر کے خلاف آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ خان نے یہ مطالبہ برطانوی وزیراعظم ٹریزا مَے کے نام ایک خط میں کیا ہے۔
ہارون خان نے اپنے خط میں کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے انتخابی امیدواروں کے بیانات اور ٹویٹس کی بنیاد پر یہ مطالبہ کیا ہے۔ خط کے مطابق ان اراکین کی جانب سے نسلی تعصب اور مذہبی انتہا پسندی سے عبارت سخت بیانات مقامی انتخابات کے دوران دیے گئے اور اب بھی یہ معمول ہیں۔
ہارون خان نے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا تعین ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس عزم پر قائم رہیں کہ نسلی تعصب اور ہر قسم کی مذہبی انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلم کونسل نے ایسے افراد کے خلاف ماضی میں روا رکھی گئی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی تادیبی اقدام نہ کرنے کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ اس ملک کی جمہوریت تقاضا کرتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے دائرے میں منقسم کرنے والے کلچر کو کسی صورت فروغ نہیں دینا چاہیے اور اقلیتوں کو ہر صورت میں قربانی کا بکرا بنانے سے بھی گریز ضروری ہے۔ ہارون خان کے مطابق سیاسی پارٹیوں کو ایسے اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جن سے اقلیتی حلقوں کو مجموعی معاشرتی دھارے سے علیحدہ اور تنہا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہارون خان نے اپنے خط کے ہمراہ مذہبی انتہا پسند اور نسلی امتیاز کے اپریل اور مئی میں رونما ہونے والے واقعات و بیانات کی تفصیلات بھی تحریر کی ہیں۔ ان واقعات میں کنزرویٹو پارٹی کے انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کے دین کو ایک نئے نازی کلچر سے قرار دینے کے علاوہ مسلمانوں کو ’طفیلیے‘ یا ’پیراسائٹس‘ سے تعبیر کرنے جیسے بیانات شامل ہیں۔
اس خط کے حوالے سے حکمران کنزرویٹو پارٹی کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ اُن کی سیاسی جماعت اسلاموفوبیا کے تمام واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔