برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ کی آزادی کا ریفرنڈم
16 جنوری 2012اس مجوزہ ریفرنڈم کے تحت برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کے مابین تین صدیوں پرانا بندھن ٹوٹنے کے امکانات موجود ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم اپنے ایک سابقہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ ریفرنڈم کی تاریخ سے متعلق غیر واضح صورتحال سے معیشت پر بُرے اثرات مرتب ہورہے ہیں لہذا جلد از جلد یہ ریفرنڈم منعقد کر وا دیا جائے۔ اُن کے برعکس اسکاٹ لینڈ کے وزیر اول الیکس سالمونڈ، جو وہاں کے حکومتی سربراہ ہیں چاہتے ہیں کہ ریفرنڈم 2014ء کے اواخر میں منعقد کیا جائے۔
برطانوی وزیر اعظم کی ترجمان کے بقول الیکس سالمونڈ کے ساتھ ڈیوڈ کیمرون کی ملاقات کا نظام اور اوقات آنے والے دنوں میں طے کرلیا جائے گا۔
برطانوی وزیر اعظم اور قریب تمام برطانوی سیاسی قیادت چاہتی ہے کہ اسکاٹ لینڈ تاج برطانیہ کا حصہ رہے جبکہ الیکس سالمونڈ کی جماعت سکاٹش نیشنل پارٹی خودمختاری کی مہم چلا رہی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ ریفرنڈم میں عوام سے محض ہاں یا نہ کا سوال پوچھا جائے۔ الیکس سالمونڈ کی سکاٹش نیشنل پارٹی البتہ چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خودمختاری کا سوال بھی ریفرنڈم میں شامل کیا جائے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق ریفرنڈم کے دوران عوام کی رائے پر اس بات کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں کہ اسکاٹ لینڈ میں صحت اور تعلیم کے شعبے کے لیے موجودہ لندن حکومت کی مالی معاونت کا بہت فائدہ ہورہا ہے۔ اس کے مقابلے میں الیکس سالمونڈ کا مؤقف ہے کہ لندن حکومت بحر شمالی میں تیل کے ذخائر سے حاصل شدہ آمدن کا بہت بڑا حصہ اپنے پاس رکھتی ہے اور آزادی کے بعد اس پر اسکاٹ لینڈ کا حق بڑھ جائے گا۔
اسکاٹ لینڈ میں سالمونڈ کی جماعت سکاٹش نیشنل پارٹی نے گزشتہ برس انتخابات میں اکثریت حاصل کی تھی، جس کے بعد انہوں نے خود مختاری کے لیے مہم تیز کر دی۔ لندن حکومت نے اس معاملے میں گزشتہ ہفتے یہ کہہ کر مداخلت کی کہ سکاٹش حکومت آئینی طور پر اس طرح کے ریفرنڈم کا انعقاد نہیں کرسکتی۔ اب تک رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کی تاج برطانیہ سے آزادی کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ اسکاٹ لینڈ میں اس آزادی کے مخالفین کی تعداد زیادہ ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امتیاز احمد