ایشیا میں طلاق کی خواہاں خواتین کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا
24 اگست 2025کراچی، پاکستان کی 33 سالہ زویا احمد اپنے شوہر سے طلاق چاہتی ہیں، لیکن اس کے لیے انہیں ایک مشکل عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
ان کے شوہر نے ان کے فیصلے کے جواب میں انتقامی مہم شروع کر دی، جس کے تحت مبینہ طور پر جھوٹے پولیس کیسز درج کروائے گئے، جن میں ناجائز تعلقات کا مجرمانہ مقدمہ اور جائیداد کے جھگڑے بھی شامل ہیں۔
زویا بتاتی ہیں، ''یہ (ناجائز تعلقات کا کیس) خواتین کے خلاف ہے۔ عدالت میں مجھے انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کمرہ عدالت مردوں سے بھرا ہوتا ہے… جس طرح سب میری طرف دیکھتے ہیں، یہ ایک الگ خوفناک تجربہ ہے۔‘‘
زویا نے کہا کہ ازدواجی زندگی ٹوٹنے کی ایک وجہ جنسی عدم مطابقت بھی تھی۔ ان کے مطابق شوہر نے ان کی قربت کی خواہش کو سماجی طور پر ان کے خلاف استعمال کیا اور کہا، ''تمہیں سیکس چاہیے تھا نا، اب ملے گا۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے کئی مرد دوستوں کو ناجائز تعلقات کے کیس میں پھنسایا گیا، جس سے ان کی سماجی حیثیت مزید متاثر ہوئی۔
ایشیا بھر میں طلاق کو اب بھی شدید سماجی بدنامی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اگرچہ بھارت، پاکستان اور انڈونیشیا سمیت کئی ملکوں میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، لیکن خواتین کے لیے اس کے نتائج بدستور ہولناک ہیں۔
مالی عدم تحفظ اور جذباتی دباؤ
پاکستان میں طلاق اسلامی قانون کے تحت جائز ہے۔ شادی شدہ خواتین طلاق کے لیے درخواست دے سکتی ہیں، لیکن اکثر معاملات میں انہیں مہر کی رقم کو واپس کرنا یا چھوڑ دینا پڑتا ہے۔
ایک 34 سالہ خاتون، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی طلاق کی کوشش ایک طویل قانونی جنگ بن گئی کیونکہ ان کے نکاح نامے سے ''خلع‘‘ کی شق نکال دی گئی تھی۔
اگرچہ خواتین کو قانونی طور پر طلاق کا حق مل بھی جائے، جذباتی نتائج تب بھی شدید ہوتے ہیں۔
برطانیہ میں مقیم 40 سالہ پاکستانی خاتون نوین نوٹیار نے اپنے والدین کے طلاق کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی والدہ نے نکاح نامے میں خلع کی شق شامل کروانے پر زور دیا تھا۔
انہوں نے کہا، ''میری نانی نے نکاح کے وقت میرے والد کے گھر والوں سے اس بارے میں بات کی تھی اور وہ راضی ہو گئے تھے۔‘‘
ان کی والدہ شادی ختم کرنے میں کامیاب ہو گئیں، لیکن اس کے بعد بچوں کی حوالگی پر مقدمہ ہوا۔
نوٹیار کہتی ہیں، ''اکثر سمجھا جاتا ہے کہ بچوں کی حوالگی ایسی چیز ہے جس پر لڑا جا سکتا ہے اور اسے عورت کی زندگی مشکل بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
سن دو ہزار بیس میں پاکستان کے صوبے پنجاب میں 427 مطلقہ خواتین پر کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ان میں ڈپریشن، اضطراب اور ذہنی دباؤ کی شرح بہت زیادہ تھی، جس کی بڑی وجہ مالی عدم تحفظ اور خاندانی مخالفت تھی۔
پاکستان میں قانونی طور پر بچوں کی تحویل اکثر ماں کو ملتی ہے، خاص طور پر کم عمر بچوں کی۔ باپ پر مالی تعاون کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن ملاقات کا فیصلہ عام طور پر ماں کے اختیار میں ہوتا ہے۔
ایک پاکستانی والد، عباس (فرضی نام) جنہیں عدالت نے بچوں کی کفالت کا پابند بنایا ہے، کہتے ہیں، ''ماں اور اس کے خاندان نے مکمل طور پر رابطہ ختم کر دیا ہے۔ دکھ ہوتا ہے کہ بچے اپنے دادا، دادی کی محبت سے محروم ہیں۔‘‘
فلپائن میں طلاق غیر قانونی
اس کے برعکس، فلپائن دنیا کے ان دو مقامات میں سے ایک ہے جہاں طلاق اب بھی غیر قانونی ہے، دوسرا ویٹیکن سٹی ہے۔
فلپائن میں شادی ختم کرنے کا واحد قانونی راستہ ''اینلمنٹ‘‘ (شادی کو کالعدم قرار دینا) ہے۔
برلن میں مقیم فلپائنی صحافی آنا پی سانتوس نے اپنی شادی ختم کرنے کے لیے چار سال تک جدوجہد کی۔ انہوں نے کہا، ''میرے پاس یہ سہولت تھی، کیونکہ میرا وکیل اچھا تھا۔ لیکن زیادہ تر خواتین اتنے طویل اور مہنگے عمل کو برداشت نہیں کر سکتیں۔‘‘
اینلمنٹ کے لیے دھوکہ دہی، دماغی کمزوری یا نامردی کا ثبوت دینا پڑتا ہے، جس سے خواتین کو اپنی ذاتی زندگی کو عدالت میں ننگا کرنا پڑتا ہے۔
فلپائنی ماہر عمرانیات ایتھینا پریستو کہتی ہیں، ''ایک عورت کو محض اس لیے برا ثابت کیا جاتا ہے کہ وہ شوہر سے الگ ہونا چاہتی ہے۔‘‘
بہت سی خواتین مالی اور جذباتی دباؤ کے باعث رسمی قانونی اینلمنٹ کے بجائے غیر رسمی علیحدگی کو ترجیح دیتی ہیں۔
فلپائن میں محض 1.9 فیصد افراد نے قانونی علیحدگی یا بیرونِ ملک طلاق حاصل کی ہے۔
اجتماعیت بمقابلہ انفرادی انتخاب
پاکستان اور فلپائن جیسے ملکوں میں مالی انحصار خواتین کو ناخوشگوار شادیوں کا قیدی بنائے رکھتا ہے۔
پاکستانی محقق بیلا نواز کہتی ہیں، ''یہ صرف پدرشاہی نہیں بلکہ اجتماعیت ہے۔ ہم انفرادی طور پر نہیں بلکہ خاندانی یونٹ کے طور پر زندہ رہتے ہیں، اور اس سے خواتین کے لیے آزاد فیصلے کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
یہ سوچ خواتین کو ذاتی خوشی کی بجائے خاندانی عزت کو ترجیح دینے پر مجبور کرتی ہے۔ جو خواتین الگ ہونے کا فیصلہ کرتی ہیں، انہیں اکثر خودغرض یا غیر اخلاقی قرار دے کر برادری اور سہارا دینے والے نظام سے کاٹ دیا جاتا ہے۔
فلپائن میں اکثر خاندان اور برادری کے بزرگ عورت کو اینلمنٹ کا فیصلہ کرنے سے پہلے ہی روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک سماجی رویوں اور خواتین کے لیے معاشی مواقع میں ترقی نہیں ہوتی، صرف قانونی اصلاحات میدان ہموار نہیں کر سکتیں۔
ایشیا کے کئی حصوں میں طلاق اب بھی صنفی مسئلہ ہے اور عورت کا شادی کے بندھن سے آزاد ہونے کا فیصلہ ایک انقلابی قدم سمجھا جاتا ہے۔
ترجمہ: جاوید اختر
ادارت:کشور مصطفیٰ