ایرک گارنر کی ہلاکت کی وفاقی سطح پر تفتیش کی جائے گی، ایرک ہولڈر
4 دسمبر 2014افریقی نژاد امریکی شہری ایرک گارنر سترہ جولائی کو اس وقت ہلاک ہو گئے تھے، جب پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی۔ پولیس کو شبہ تھا کہ 43 سالہ گارنر نیو یارک کے علاقے اسٹیٹن آئی لینڈ میں غیر قانونی طور پر کھلے سگریٹ فروخت کر رہے تھے، جس پر پولیس اہلکاروں نے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ہتھکڑی پہننے سے انکار کر دیا۔
اس پر سفید فام پولیس اہلکار ڈینیئل پینٹالیو نے ان کی گردن کو اپنا بازو لے کر انہیں زمین پر لٹا دیا۔ ایک راہگیر کی طرف سے اس واقعے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے، جس میں گارنر یہ کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں، ’میں سانس نہیں لے سکتا‘، لیکن پولیس اہلکار نے انہیں اسی طرح جکڑے رکھا۔ اسی دوران گارنر کی موت واقع ہو گئی تھی۔
گارنر کے اہل خانہ نے اس ہلاکت کا ذمہ دار ڈینیئل پینٹالیو کو قرار دے کر قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا لیکن بدھ کے دن نیو یارک کی ایک گرینڈ جیوری نے فیصلہ سنایا کہ گارنر کی ہلاکت کے لیے پینٹالیو پر فرد جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔ جیوری کے اس فیصلے کے بعد ریاست نیو یارک میں نسلی بنیادوں پر کشیدگی اور ممکنہ تشدد کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔
اسی دوران گرینڈ جیوری کے فیصلے بعد نیو یارک شہر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ٹائمز اسکوائر پر جمع ہونے والے مظاہرین نے اس واقعے میں پبلک ٹرائل کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح اسٹیٹن آئی لینڈ کے علاوہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
اس صورتحال میں امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے کہا ہے کہ اس ہلاکت کے حوالے سے تمام تر حقائق جاننے کے لیے وفاقی سطح پر تفتیش کی جائے گی۔ ایرک ہولڈر نے کہا، ’’اس کیس کے سلسلے میں مقامی سطح پر تفتیشی عمل مکمل ہو چکا ہے اور اب اس معاملے کی وفاقی سطح پر تفتیش کی جائے گی۔‘‘ واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی تفتیش کار یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آیا ایرک گارنر کے سول حقوق کی خلاف وزری کی گئی تھی یا نہیں۔ ہولڈر نے گارنر کی موت کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے عوام کو یقین دلایا کہ امریکی نظام انصاف عوام کی توقعات پر پورا اترے گا۔
یہ امر اہم ہے کہ نیو یارک کی اس جیوری کی طرف سے گارنر کی ہلاکت پر یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سنایا گیا ہے، جب ابھی گزشتہ ہفتے ہی ایک سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام ٹین ایجر مائیکل براؤن کی ہلاکت کے واقعے پر بالخصوص سیاہ فام آبادی تذبذب کا شکار ہے۔ اس کیس میں بھی گرینڈ جیوری نے فیصلہ سنایا تھا کہ ناکافی شواہد کی بنیاد پر مائیکل براؤن کی ہلاکت کے لیے پولیس اہلکار کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی ہے۔
ان تازہ واقعات کے تناظر میں امریکا میں پولیس کی طرف سے طاقت کے بے جا استعمال اور بالخصوص اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ دوسری طرف امریکا میں سرگرم انسانی حقوق کے کارکن آل شارپٹن نے نیو یارک میں گرینڈ جیوری کے اس فیصلے پر واشنگٹن میں مظاہروں کی کال دے دی ہے۔
بدھ کی رات گارنر کے اہل خانہ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمیں مقامی اسٹیٹ پراسیکیوٹرز پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ یہ مقامی پولیس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔‘‘ اس موقع پر گارنر کی والدہ نے کہا کہ گرینڈ جیوری کی طرف سے پولیس اہلکار کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ منطق سے بالا تر ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایرک گارنر کا پوسٹ مارٹم کرنے والے طبی اہلکاروں نے کہا تھا کہ ان کی موت دم گھٹنے سے ہوئی تھی۔ اس معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ گرینڈ جیوری کے اس فیصلے کو دیکھتے ہوئے اس امر کی ضرورت ہے کہ شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین اعتماد کی فضا قائم کرنا کتنا ضروری ہے۔