ایرانی ایٹمی پالیسی، تہران تعاون کا خواہش مند
28 فروری 2012جنیوا سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے یہ بات آج منگل کے روز کہی۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ’پرامن ایٹمی پروگرام‘ سے ڈیل کرنے کے صرف دو طریقے ہیں، تصادم یا تعمیری تعاون۔
علی اکبر صالحی نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والی ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس سے اپنے خطاب میں زور دے کر کہا کہ ایران کسی کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا بلکہ تعاون اور اشتراک عمل کو ترجیح دیتا ہے۔
اپنے اس خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ نے مغربی دنیا پر دوہرے معیارات کا الزام بھی لگایا۔ انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا اسرائیل کی تائید و حمایت کرتی ہے، جو مشرق وسطیٰ کی وہ واحد ریاست ہے جو ابھی تک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے NPT میں شامل نہیں ہوئی۔
اقوام متحدہ کی اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صالحی نے کہا کہ تہران یہ بات بار بار کہہ چکا ہے کہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام سے متعلق اختلاف رائے کو ختم کرنے کے دو ہی طریقے ہیں، اشتراک عمل اور تعاون یا پھر تصادم اور تنازعے کا راستہ۔
صالحی کے بقول، ’ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام کے پرامن ہونے کا پورا یقین ہے اور اس نے ہمیشہ تعاون اور تصادم میں سے پہلے راستے کے انتخاب کو ترجیح دی ہے۔ جب بات ایران کے حقوق اور ذمہ داریوں کی ہوتی ہے، تو بھی اس کا مؤقف یہی ہوتا ہے کہ وہ کوئی تصادم نہیں بلکہ صرف اپنے جائز اور لازمی حقوق حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘
اس موقع پر ایرانی وزیر خارجہ نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ ایٹمی توانائی اور ایٹمی ہتھیار دو علیحدہ علیحدہ حقائق ہیں۔ علی اکبر صالحی کے مطابق، ’ایران کئی بار کہہ چکا ہے کہ وہ وسیع تر تباہی کا سبب بننے والے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔‘
عالمی ادارے کی ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق کانفرنس سے اپنے خطاب کے بعد ایرانی وزیر نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ تہران کے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ آئندہ مذاکرات کے بارے میں پرامید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ IAEA کے ساتھ معاملات میں حال ہی میں پیدا ہونے والا جمود جلد ختم ہو سکے گا۔
ایران بار بار یہ کہتا آیا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی طرف سے اس بارے میں شبہات ظاہر کیے جاتے ہیں کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات میں افزودہ کیا جانے والا یورینیم ممکنہ طور پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک