ایران پر پابندیاں، ایرانی شہریوں کی مشکلات
6 فروری 2012سبزی فروش حسن شرفی ہر روز کی محنت کے بعد اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے۔ وہ ایرانی حکومت کے متنازعہ جوہری پروگرام کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’قیمتیں روز بہ روز اوپر جا رہی ہیں۔ اب میں مرغی یا گوشت مہینے میں ایک بار خرید سکتا ہوں۔ پہلے میں ایسا ہفتے میں دو بار کرتا تھا۔‘‘
چار بچوں کا باپ شرفی مزید کہتا ہے، ’’کبھی کبھی میرا خود کو مار لینے کو جی کرتا ہے۔ میں خود کو بے بس محسوس کرتا ہوں۔ میں اتنا نہیں کما پاتا جتنا مجھے اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے درکار ہے۔‘‘
ایران کے پارلیمانی انتخابات میں محض ایک ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے۔ یہ انتخابات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں، جب ایران پر امریکہ اور یورپ کی اقتصادی پابندیوں نے ایرانی معیشت پر اثرات مرتب کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے، تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے جوہری توانائی اور مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام میں خاصی بے قاعدگیاں ہیں اور ایران کا ارادہ جوہری ہتھیار سازی کا ہے۔
ایران کے شہروں اور قصبوں میں لوگ ابتر ہوتی ہوئی معاشی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ معاشی صورت حال انتخابات کا ایک اہم موضوع ہو سکتے ہیں، جو صدر احمدی نژاد اور ان کے مخالفین کے درمیان فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔
سن دو ہزار نو کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد صدر احمدی نژاد کے خلاف عوامی احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ قریباً آٹھ ماہ تک جاری رہا۔ گو کہ ان مظاہروں کو حکومت نے سختی سے کچل دیا تھا تاہم گزشتہ برس سے عرب اسپرنگ کے آغاز سے پورے خطے میں حکومتیں پریشانی کا شکار ہیں۔ یہ صورت حال ایرانی حکومت کے لیے بھی پریشان کن ہے۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ روئٹرز
ادارت: امتیاز احمد