ایران پر اسرائیلی حملے: اعلیٰ فوجی قیادت، جوہری ماہرین ہلاک
وقت اشاعت 13 جون 2025آخری اپ ڈیٹ 13 جون 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- اسرائیل-ایران کشیدگی: بڑی ایئرلائنز کی مشرق وسطیٰ کے لیے پروازیں معطل
- ایران پر حملوں کے بعد اسرائیل نے دنیا بھر میں اپنے سفارت خانے بند کر دیے
- ایران پر اسرائیلی حملوں کی نئی لہر
- ٹرمپ کی ایران کو دھمکی: ’زیادہ ہلاکت خیز حملے ہونے والے ہیں‘
- اسرائیلی حملہ ’اعلانِ جنگ‘ ہے، ایران
- اسرائیل-ایران کشیدگی: جرمن وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ کے دورے پر
- آئی اے ای اے کے سربراہ کی اسرائیلی حملوں پر ’گہری تشویش‘
- ایران پر حملہ ’فیصلہ کن موڑ‘ تھا، اسرائیلی وزیر دفاع
- اردن نے ایرانی میزائل اور ڈرون مار گرائے
- اسرائیلی حملے میں چھ ایرانی جوہری سائنسدان ہلاک، مقامی میڈیا
- اسرائیل ایرانی ڈرون حملوں کے لیے تیار
- برطانیہ کی فریقین کو تحمل کی اپیل، سفارت کاری کی طرف واپسی پر زور
- پاکستان کی جانب سے ایران پر اسرائیلی حملوں کی مزمت
- نطنز جوہری تنصیب پر حملے کے بعد تابکاری کا اخراج نہیں ہوا، آئی اے ای اے
اسرائیل-ایران کشیدگی: بڑی ایئرلائنز کی مشرق وسطیٰ کے لیے پروازیں معطل
اسرائیل کی جانب سے ایران میں فضائی حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے پیش نظر متعدد ممالک نے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں، جس کے باعث بین الاقوامی ایئرلائنز نے ایران، اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے اپنی مسافر پروازیں منسوخ یا مؤخر کر دی ہیں۔ اسرائیل، ایران، عراق، اردن اور شام نے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔
اسرائیلی فضائی کمپنی ایل آل (El Al) نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اسرائیل کے لیے اور وہاں سے بیرون ملک تمام پروازیں عارضی طور پر معطل کر دی ہیں۔ جرمن ایئرلائن لفتھانزا گروپ نے بھی تہران اور تل ابیب کے لیے اپنی تمام تجارتی پروازیں 31 جولائی تک منسوخ کر دی ہیں۔
امارات ایئرلائن نے عراق، اردن، لبنان اور ایران کے لیے اپنی پروازیں عارضی طور پر بند کر دی ہیں۔ اسی طرح قطر ایئرویز نے بھی اعلان کیا ہے کہ ایران اور عراق کے لیے اس کی تمام مسافر پروازیں موجودہ صورت حال کے سبب وقتی طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ ٹرکش ایئرلائنز اور دیگر ترک فضائی کمپنیوں نے بھی ایران، عراق، شام اور اردن کے لیے آئندہ پیر تک اپنی مسافر پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔
ایئر فرانس نے بھی تل ابیب کے لیے اپنی تمام پروازیں غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی ہیں۔ ادھر روسی ایوی ایشن اتھارٹی نے روسی ایئرلائنز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسرائیل، اردن، عراق اور ایران کی فضائی حدود میں سفر سے پرہیز کریں۔ قطر، دبئی اور ابوظہبی جیسے اہم بین الاقوامی ہوائی اڈوں نے مسافروں کو ممکنہ تاخیر اور شیڈول میں بڑی تبدیلیوں سے متعلق پیشگی خبردار کر دیا ہے۔ خطے میں ہوائی سفر پر یہ شدید اثرات موجودہ کشیدہ جغرافیائی صورت حال کے تناظر میں غیرمعمولی سمجھے جا رہے ہیں۔
ایران پر حملوں کے بعد اسرائیل نے دنیا بھر میں اپنے سفارت خانے بند کر دیے
ایران پر فضائی حملوں کے بعد اسرائیل نے عارضی طور پر دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کی جانب سے مختلف ممالک میں قائم سفارتی مشنوں کی ویب سائٹس پر جاری کردہ پیغامات میں بیرون ملک مقیم اسرائیلی شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عوامی مقامات پر یہودی یا اسرائیلی علامات کو نمایاں نہ کریں۔
برلن میں اسرائیلی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان کے مطابق دنیا بھر میں اسرائیلی مشن بند رہیں گے اور قونصلر خدمات فراہم نہیں کی جائیں گی۔ تاہم بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ سفارتی مشن دوبارہ کب کھولے جائیں گے۔
وزارت خارجہ نے بیرون ملک موجود اسرائیلی شہریوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی موجودہ لوکیشن رجسٹر کرائیں تاکہ ہنگامی حالات میں رابطہ ممکن ہو سکے۔.
ایران پر اسرائیلی حملے: پاکستان کے لیے ممکنہ مضمرات؟
ایران پر آج جمعے کے روز کیے گئے اسرائیلی حملوں کے عالمی اور علاقائی مضمرات پر جاری بحثوں میں پاکستان کے حوالے سے بھی تجزیہ کار اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کی کلیدی وجوہات میں پاکستان کی اسلامی دنیا میں واحد جوہری طاقت کی حیثیت اور اس کا ایران کا ہمسایہ ملک ہونا بھی شامل ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جنہوں نے فوری طور پر ان اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اسرائیلی حملے نہ صرف ایران کی ریاستی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں، بلکہ وہ اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کے بھی منافی ہیں۔
اس سرکاری بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ اسرئیلی حملے پورے خطے میں امن و استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، اور ان کے اثرات دیگر ممالک تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
اسی دوران نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایکس پر ایک پوسٹ میں ایرانی حکومت اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہارکیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران میں موجود پاکستانی زائرین کی مدد کے لیے اسلام آباد میں وزارت خارجہ میں ایک کرائسس مینجمنٹ یونٹ قائم کر دیا گیا ہے، جبکہ تہران میں موجود پاکستانی سفارتخانے کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ زائرین اور کمیونٹی کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے۔
انہی اسرائیلی حملوں کے حوالے سے پاکستان کے لیے فوری مضمرات کے بارے میں عالمی سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ایران پر ان حملوں کے پاکستان پر فوری اور براہ راست اثرات مرتب ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ تاہم ان کے بقول، ’’اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے، تو اس کے نتائج پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے سنگین ہو سکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عسکری کا مزید کہنا تھا کہ بظاہر پاکستانی حکومت اس وقت امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہے، جبکہ عوام کی اکثریت، دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے باشندوں کی طرح، ایران کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔ ’’ایسی صورت حال میں پاکستان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ وہ عملی طور پر کیا پوزیشن لے۔‘‘
ڈاکٹر عسکری نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’اسلام آباد حکومت کی اولین ترجیح یہ ہوگی کہ کشیدگی میں اضافہ نہ ہو۔ پاکستان اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے توقع رکھے گا کہ وہ امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔ چونکہ پاکستان اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بھی ہے، اس لیے بھی وہ جنگ بندی اور کشیدگی کے خاتمہ چاہے گا۔ ‘‘
ایران میں تازہ اسرائیلی حملوں کے تناظر میں ایک اور اہم موضوع بحث پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کا ہے۔ پاکستانی کے نجی شعبے میں قائم بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ سے وابستہ بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر زینب احمد کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایٹمی پروگرام کی آڑ میں ایران پر کیے جانے والے حملے درحقیقت اسرائیلی توسیع پسندی کے مظہر ہیں۔
ڈاکٹر زینب کے بقول، ’’اس حملے کے اثرات پاکستان اور افغانستان سمیت پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ اگر عالمی برادری نے اسرائیل کو نہ روکا، تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اثاثوں کے تحفظ سے متعلق خدشات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان حالات میں پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کا پہلے سے طے شدہ دورہ امریکہ بھی سوالات کی زد میں آ سکتا ہے، اور بعض حلقے تو اس دورے کو امریکہ کی جانب جھکاؤ سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔
ایران پر اسرائیلی حملوں کی نئی لہر
ایران سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے جمعے کو ایک اور نئی فضائی حملوں کی لہر شروع کر دی ہے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق شمال مغربی شہر تبریز کے ہوائی اڈے پر ایک اسرائیلی حملے کے نتیجے میں آگ بھڑک اٹھی، جب کہ شیراز اور نطانز کے جوہری مرکز پر بھی مزید حملوں کی اطلاعات ہیں۔
ٹرمپ کی ایران کو دھمکی: ’زیادہ ہلاکت خیز حملے ہونے والے ہیں‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کی صبح اپنے سوشل پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر ایران کو خبردار کیا کہ اسرائیل کے ’’مزید ہلاکت خیز حملے پہلے سے تیار ہیں۔‘‘
ٹرمپ نے لکھا کہ انہوں نے ایرانی حکام کو سخت ترین الفاظ میں کہا تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ جوہری پروگرام پر معاہدہ کریں، مگر ’’کچھ ایرانی سخت گیر عناصر نے انکار کیا۔‘‘
امریکی صدر نے دعویٰ کیا، ’’وہ سب اب مارے جا چکے ہیں، اور یہ صرف آغاز ہے۔‘‘ ٹرمپ کے مطابق اسرائیل کے پاس امریکہ کے فراہم کردہ ’’دنیا کے سب سے جدید اور مہلک ہتھیار‘‘ موجود ہیں، اور ’’مزید آ رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے ایران سے مطالبہ کیا، ’’معاہدہ کریں، اس سے پہلے کہ کچھ باقی نہ بچے... نہ موت، نہ تباہی، بس کر دیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘‘ امریکہ کی جانب سے پہلے کہا گیا تھا کہ اسرائیلی حملوں سے پہلے واشنگٹن کو اطلاع دی گئی تھی، تاہم امریکہ نے اس کارروائی میں کسی بھی قسم کی شمولیت سے انکار کیا ہے۔
اسرائیلی حملہ ’اعلانِ جنگ‘ ہے، ایران
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعے کو اسرائیل کی تازہ فضائی کارروائی کو ’’اعلانِ جنگ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے نام ایک خط میں، جسے سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے رپورٹ کیا، مطالبہ کیا ہے کہ سلامتی کونسل فوری طور پر اس معاملے کو زیر غور لائے۔
ایرانی دعووں کے مطابق اسرائیل کے بڑے پیمانے پر حملوں میں چھ ایٹمی سائنسدانوں کے علاوہ ملک کی مسلح افواج کے سربراہ سمیت کئی اعلیٰ فوجی کمانڈر بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ایران نے مزید بتایا کہ 95 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک سینئر مشیر بھی شامل ہیں۔
اسرائیل-ایران کشیدگی کے سائے میں جرمن وزیر خارجہ کا دورہ مشرق وسطیٰ
جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈےفیہول نے مشرق وسطیٰ کی تازہ صورت حال کے تناظر میں مصر سے اس خطے کے اپنے دورے کا آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے خطے میں جاری کشیدگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’یہ سب پیش رفتیں انتہائی تشویش ناک ہیں۔‘‘
واڈےفیہول کے مطابق ان کے دورے کا ایک مقصد ’’ایرانی جوہری صلاحیتوں کو مزید ترقی دینے سے روکنا ہے۔‘‘ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو’’پورے خطے، خاص طور پر اسرائیل کے لیے خطرہ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے تمام فریقوں سے ’’مزید کشیدگی بڑھانے والے اقدامات سے گریز‘‘ کرنے کی اپیل کی۔ وفاقی جرمن وزیر خارجہ کے اس دورے کے دوران ان کے لبنان، اردن اور اسرائیل جانے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے تاہم اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی ممکنہ طور پر اس شیڈول کو متاثر کر سکتی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے کہا، ’’میں آج اس بارے میں مزید غور کروں گا، پھر اس بارے میں بہتر رائے دے سکوں گا۔
ایرانی ڈرون حملے: اسرائیل نے پناہ گاہوں کے قریب رہنے کی ہدایت واپس لے لی
اسرائیلی حکام نے ایران کی جانب سے کیے گئے ڈرون حملوں کے بعد فضائی حملوں سے تحفظ کی پناہ گاہوں کے قریب رہنے کی ملکی شہریوں کے لیے جاری کردہ ہدایت ختم کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج کی ہوم فرنٹ کمانڈ نے اعلان کیا، ’’محفوظ مقامات کے قریب رہنے کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔‘‘
اس سے قبل اسرائیلی فوج نے بتایا تھا کہ وہ ایران کی جانب سے بھیجے گئے تقریباً 100 ڈرونز میں سے ابتدائی ڈرونز کو روکنے کا عمل شروع کر چکی ہے۔ یہ ڈرونز اسرائیل کے ایران پر بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے ردعمل میں لانچ کیے گئے تھے۔ بائیں بازو کے اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق، اسرائیلی دفاعی فورسز نے یہ فیصلہ ’’اس بنیاد پر کیا کہ فی الوقت ڈرونز پر ہمارا کنٹرول ہے۔‘‘
اسرائیلی نیوز ویب سائٹس ynet اور N12 نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’تمام‘‘ ایرانی ڈرون مار گرائے جا چکے ہیں، تاہم اسرائیلی فوج نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ ایک فوجی اہلکار نے صرف اتنا کہا کہ ’’کئی‘‘ ڈرون تباہ کیے جا چکے ہیں۔
آئی اے ای اے کے سربراہ کی اسرائیلی حملوں پر ’گہری تشویش‘
اقوامِ متحدہ کی جوہری توانائی سے متعلق نگران ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافائل گروسی نے ایران پر اسرائیلی فضائی حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایک بیان میں گروسی نے کہا، ’’یہ پیش رفت انتہائی تشویشناک ہے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جوہری تنصیبات پر کبھی حملہ نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے ایرانی حکام کی جانب سےمہیا کی گئی اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’نطنزمیں یورینیم کی افزودگی کا مرکز متاثر ہوا ہے۔‘‘ تاہم ان کے بقول، ’’تابکاری کی سطح میں کوئی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا۔‘‘
رافائل گروسی نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’ایسی کوئی بھی عسکری کارروائی جو جوہری تنصیبات کی حفاظت کو خطرے میں ڈالے، ایران، خطے اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے تمام فریقوں سے ’’حد درجہ ضبط اور تحمل‘‘ کی اپیل کی۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے ٹیلیفون پر حملے سے متعلق آگاہ کیا، جرمن چانسلر
جرمنی کے چانسلر فریڈرش میرس نے جمعے کی صبح تصدیق کی کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے انہیں ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائی کے بارے میں ٹیلیفون پر آگاہ کیا تھا۔ جرمن جریدے ڈئر اشپیگل کے مطابق یہ کال حملے سے قبل کی گئی، تاہم سرکاری طور پر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ دونوں رہنماؤں کے مابین یہ گفتگو ایران پر اسرائیلی حملوں سے پہلے ہوئی یا بعد میں۔
چانسلر میرس نے ایک بیان میں کہا، ’’جرمن حکومت برسوں سے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام پر تشویش ظاہر کرتی رہی ہے۔‘‘ ان کے بقول تہران کا جوہری پروگرام ’’پورے خطے کے لیے، اور خاص طور پر اسرائیل کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔‘‘ انہوں نے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو مزید کشیدگی پیدا کر سکتے یا خطے کو غیر مستحکم بنا سکتے ہیں۔ فریڈرش میرس نے کہا کہ جرمنی تمام سفارتی ذرائع کے ساتھ ثالثی کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمن حکومت کی سکیورٹی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے اور یہ کہ ان کی حکومت برطانیہ، فرانس اور امریکہ سمیت اپنے شراکت داروں سے قریبی رابطے میں ہے۔ جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا، ’’ہدف اب بھی یہی ہونا چاہیے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہ دی جائے۔‘‘
حملہ ’فیصلہ کن موڑ‘ تھا، اسرائیلی وزیر دفاع
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ایران پر کیے گئے حملوں کے بعد کہا کہ یہ ’’ریاست اسرائیل اور یہودی قوم کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن لمحہ تھا۔‘‘ انہوں نے ایکس پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا، ’’آپریشن کا مقصد ایران کے اسرائیل پر وجودی خطرے کو ختم کرنا ہے۔‘‘ کاٹز کے مطابق حملے کا وقت ’’ایک ایسا موڑ تھا، جسے اگر ہم گنوا دیتے، تو ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا ممکن نہ رہتا، جو ہماری بقا کو خطرے میں ڈال دیتے۔‘‘
اردن نے ایرانی میزائل اور ڈرون مار گرائے
اردن کی فوج نے کہا ہے کہ جمعے کی صبح اس کے فضائی دفاعی نظام نے ان متعدد میزائلوں اور ڈرونز کو مار گرایا، جو اردنی فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے۔ ایک فوجی بیان کے مطابق، ’’شاہی فضائیہ اور فضائی دفاعی نظام نے ان میزائلوں اور ڈرونز کو کامیابی سے روک لیا، جو اردنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔‘‘ اس سے قبل دارالحکومت عمان میں فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے تھے اور حکومت نے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی تھی۔ ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے میں 100 سے زائد ڈرونز فائر کیے ہیں۔ ایران سے اسرائیل تک پہنچنے کے لیے عام طور پر ایرانی ڈرونز یا میزائل عراق، شام یا اردن کی فضائی حدود استعمال کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اردن نے اس سے قبل بھی اپریل اور اکتوبر 2024 میں ایران کے اسرائیل پر حملے کے دوران ایرانی حملوں کو روکنے میں کردار ادا کیا تھا، جو دونوں مرتبہ اسرائیلی حملوں کے ردعمل میں کیے گئے تھے۔
اسرائیلی حملے میں چھ ایرانی جوہری سائنسدان ہلاک، مقامی میڈیا
ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعے کی صبح ہونے والے اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم چھ ایرانی جوہری سائنسدان بھی ہلاک ہو گئے۔ سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ہلاک ہونے والے سائنسدانوں میں عبد الحمید منوچہر، احمد رضا ذوالفقاری، امیرحسین فقہی، مطلب علیزاده، محمد مہدی تہرانچی اور فریدون عباسی شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تہرانچی ایران کی آزاد اسلامی یونیورسٹی کے صدر تھے، جبکہ فریدون عباسی ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سابق سربراہ تھے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے حملے خاص طور پر ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے تاکہ تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے، جنہیں اسرائیل اپنی بقا کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
اسرائیل ایرانی ڈرون حملوں کے لیے تیار
اسرائیلی فوج کے مطابق ایران نے اسرائیل کی سمت ایک سو ڈرونز لانچ کیے ہیں، جس کے بعد اسرائیلی شہریوں کو اپنے گھروں یا قریبی عوامی پناہ گاہوں تک محدود رہنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون ایران سے لانچ کیے جانے کے بعد تقریباً سات گھنٹے میں اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہوں گے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ جیسے ہی سائرن بجیں، شہریوں کو فوراً پناہ گاہوں میں چلے جانا چاہیے اور وہ وہاں سے تب تک نہ نکلیں، جب تک کہ نئی ہدایات نہ ملیں۔ یہ ہدایت قبل ازیں غزہ، یمن یا لبنان سے داغے گئے راکٹ حملوں کی صورت سے مختلف ہے، جن میں شہریوں کو صرف 10 منٹ پناہ لینے کی ہدایت دی جاتی تھی۔
اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی ہوم فرنٹ کمانڈ کے مطابق، ’’ہم ایک بڑے خطرے کے لیے تیار ہیں، جو شدت میں مختلف ہے۔ اسی لیے اگلے چند گھنٹوں کو اس انداز سے گزارنے کی منصوبہ بندی کریں کہ سائرن بجتے ہی فوری طور پر پناہ گاہوں تک پہنچا جا سکے۔‘‘
برطانیہ کی فریقین کو تحمل کی اپیل، سفارت کاری کی طرف واپسی پر زور
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے اسرائیل اور ایران دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ ’’کشیدگی کم کریں اور فوری طور پر پیچھے ہٹیں۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا، ’’مزید بگاڑ خطے میں کسی کے مفاد میں نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ’’استحکام‘‘ اولین ترجیح ہونا چاہیے اور برطانیہ اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کشیدگی کم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے بقول، ’’یہ وقت تحمل، سکون اور سفارتی راستہ اپنانے کا ہے۔‘‘
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے صورت حال کو ’’خطرناک لمحہ‘‘قرار دیا اور خبردار کیا کہ اگر کشیدگی مزید بڑھی تو یہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ’’سنگین خطرہ‘‘ ہو گا۔