ایران اسرائیل کشیدگی: بلوچستان میں ایندھن کی قلت
پاکستان اور ایران کے مابین سرحد کی بندش سے تجارتی سرگرمیاں مفلوج ہونے اور ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی عدم دستیابی کے باعث بلوچستان میں بڑی تعداد میں پیٹرول اسٹیشن بند کر دیے گئے ہیں۔
ایرانی ایندھن کی ترسیل کے غیر رسمی ذرائع
ایرانی ایندھن جو کبھی بلوچستان کو طاقت دیتا تھا، اب وہاں نہیں پہنچ رہا۔ بلوچستان میں ایران سے ایندھن کی ترسیل اکثر غیر رسمی ذرائع سے کی جاتی ہے۔ احد آغا کہتے ہیں، ’’مگر حالیہ سکیورٹی خدشات اور ایران-اسرائیل تنازعے کے باعث بارڈر پر سخت نگرانی اور بندش نے ان ذرائع کو یکسر مسدود کر دیا ہے۔‘‘
تجارتی بندش سے معیشت متاثر
بلوچستان کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر بدرالدین خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صوبے کی معیشت کے ایک بڑے حصے کا انحصار ایران کے ساتھ رسمی اور غیر رسمی تجارتی روابط پر ہے۔ ان کے بقول، ’’پیٹرولیم مصنوعات کی عدم دستیابی کے باعث صوبے میں ٹرانسپورٹ، زراعت اور مقامی صنعتوں کو بھی اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔‘‘
صوبے میں پیٹرول پمپوں کی بڑی تعداد بند
پاکستان آئل مارکیٹنگ ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر عبدالحق اعوان کے مطابق بلوچستان میں 90 فیصد سے زائد پیٹرول پمپوں میں ایران سے اسمگل شدہ ڈیزل اور پیٹرول فروخت ہو رہا تھا۔ ان کے بقول، ایرانی سرحد بند ہونے کے باعث پاکستان کا یہ صوبہ پیٹرولیم مصنوعات کے شدید بحران کی لپیٹ میں ہے۔
معاشی نقل و حمل کو منجمد کر دینے والا بحران
پیٹرول اور ڈیزل کی قلت سے روزمرہ کی زندگی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اشیاء خور و نوش کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ یہ بات اقتصادی امور کے تجزیہ کار سید احد آغا نے ڈی ڈبلیو کو بتائی۔ ان کے الفاظ میں، ’’یہ صرف سرحد بند ہونے کا مسئلہ نہیں، بلکہ بلوچستان میں اقتصادی نقل و حرکت کو مکمل طور پر منجمد کر دینے والا بحران ہے۔‘‘
صوبے کے لیے ایرانی ایندھن ناگزیر
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں ایرانی ڈیزل اور پیٹرول نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ تجارتی اور زرعی شعبوں میں بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ ایرانی ایندھن کی ترسیل کی اچانک بندش کی وجہ سے صوبے میں معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی عدم دستیابی پر قابو پانے کی کوشش
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کہتے ہیں کہ اس بحران پر قابو پانے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حکومت کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہے۔ رند کے بقول، ’’تمام امور کا جائزہ لیا جا رہا ہے، تاکہ اس کشیدہ صورتحال سے عوام کم سے کم متاثر ہوں۔‘‘